اسلام آباد(محمداکرم عابد)پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکنان پیپلزپارٹی کے حکومت مخالف عوامی مارچ کے لئے باہر نہ نکل سکے دیگر اپوزیشن جماعتوں میں پی پی پی کی اس بڑی سیاسی سرگرمی سے متعلق لاتعلقی کی کیفیت کی صورتحال ہے۔ مسلم لیگ کو پنجاب میں عوامی مارچ میں شامل ہونے کے لئے بھی آمادہ نہ کیا جاسکاہے ،یہی طرزعمل پیپلزپارٹی کی طرف سے پی ڈی ایم کے طے شدہ مہنگائی مارچ کے حوالے سے اختیار کیا جاسکتاہے ۔
سندھ میں عوامی مارچ کے لئے سرکاری وسائل استعمال کرنے کے الزامات سامنے آگئے ہیں ۔سرکاری ملازمین کو عوامی مارچ کے راستے میں پی پی پی کے بینرز اور جھنڈے لگانے پر مجبور کردیاگیا ہے ۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے الزام لگایا ہے کہ سندھ میں کمشنرزڈپٹی کمشنرز کوعوامی مارچ کے استقبال کے لئے انتظامات کے بارے میں کہا گیا ہے ،مجمع کے لئے سرکارکام کر رہی ہے ۔تحریک انصاف کے سندھ حقوق مارچ سے رتو ڈیرو میں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کو للکارا۔یہ سندھ سرکار کے سہارے لانگ مارچ نکال رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے جھنڈے سرکاری ملازمین سے لگوائے جا رہے ہیں۔ پولیس کی گاڑیاں بدین میں جھنڈے لگا رہی ہیں؟ تاہم پی ٹی آئی کے مارچ میں وفاقی وزراء کی شمولیت خود ایک سوالیہ نشان ہے؟ سیکورٹی اہلکاروں اور ان کی گاڑیوںکی موجودگی قافلے کے بڑے نظر آ نے کا سبب بن رہا ہے ۔حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے بھی للکار جارہا ہے اور چینلچ کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے مارچ میں لوگوں کو دکھیا جائے ایک قطار بھی عوام کی نہیں ہے بس وزرا اور ان کے سٹاف کی وجہ سے مجعع نظر آتا ہے۔ ادھر عوامی مارچ ہالہ موروپہنچ چکا ہے ملتان میں مارچ کے لئے جنوبی پنجاب سے بڑی تعداد میں عوام کو لانا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سیدیوسف رضاگیلانی کے لئے اہم چیلنچ ہوگا دیکھیں وہ کس حد تک پارٹی قیادت کی توقعات پر پورااترتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو للکارنے والی پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکنان عوامی مارچ کے آغازہی سے اس دور ہیں کسی علاقے کسی مقام پر ان جماعتوں کے کارکنان شامل ہوئے نہ بلاول بھٹوزرداری کی تقاریر سننے گھروں سے نکل سکے۔ سیاسی حلقوں میں ان ہی سوالات کی بازگشت ہے کہ کیا پی ڈی ایم اس طرزعمل کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی مہنگائی مارچ کے لئے پرجوش حمایت حاصل کرسکے گی؟اس معاملے پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اور سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کی بات چیت بھی ہوئی ہے مسلم لیگ (ن)پنجاب میں اپنے کارکنان کی عوامی مارچ کے استقبالیہ اجتماعات میں شرکت کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکی ہے وہ قطا یہ نہیںچاہے گی کہ پنجاب جو اس کا گڑھ سمجھا جاتاہے میں پیپلزپارٹی میں کوئی جان پڑے۔شہبازشریف دوٹوک طور پر اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو کوئی یقین دہانی نہ کراسکے ہیں۔حکومت مخالف سرگرمیاں اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی طور پر قریب نہ لاسکی ہیں اپوزیشن میں بعض قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں وہ بھی بڑی اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیوں سے فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں سیاسی حلقوں میں کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ بڑی اپوزیشن جماعتوں کی ہم خیال جماعتوں سے ان معاملات پر مشاورت نہ کرنا ہے۔