facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

سیاسی کشیدگی کے معاملے کافیصلہ کن مرحلہ قریب آگیا

 اسلام آباد(محمداکرم عابد)حکومت اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی کے معاملے کافیصلہ کن مرحلہ قریب آگیا،جلددوطرفہ دم خم کاپتہ چل جائے گا۔ اپوزیشن کا دعوی ہے کہ حکومت کے خلاف سیاسی بارودی سرنگ بن چکی ہے۔تاہم ان دعوؤں کے برعکس حکمران اتحادمیں یکجہتی کی فضا برقراہے ۔وزیراعظم عمران خان کی چوہدری برادران سے ملاقات کوسیاسی حلقوں میں انتہائی اہمیت دی جارہی ہے جب کہ اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس کا تاحال کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔اس نامہ نگارکی رپورٹ کے مطابق ملک میں سیاسی صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ سیاسی معاملات پر فی الوقت حکمران اتحادکوبرتری حاصل ہے ۔ہرنیا دن حکومت کے لئے اچھی خبریں لے کر آرہا ہے ۔چوہدری مونس الہی نے وزیراعظم کی چوہدری برادران سے ملاقات کی راہ ہموار کی ہے، انھوں نے اس ضمن میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی تھی، مسلم لیگ(ق)کوصوبے میںمزیدسیاسی جگہ فراہم کرنے کی تجاویز سے وزیراعلی پنجاب کو آگاہ کیا گیا تھا ۔تعلقات کارکی نئی جہت طے کی جارہی ہے جس میں بلدیاتی انتخابات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔پنجاب کے بعض اضلاع میں مسلم لیگ(ق) کو مکمل اختیاردینے کا مطالبہ کردیا گیا ہے ۔ ملک میں موجودہ سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے اور تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان متحرک ہیں، چودھری برادران سے ملنے ان کے گھر پہنچے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کی، ملاقات میں وفاقی وزیر چودھری مونس الہی، چودھری سالک، شافع حسین، طارق بشیر چیمہ بھی شریک ہوئے ۔ عمران خان نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی اور سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔چودھری بردران سے تحریک عدم اعتمادکوناکام بنانے سے متعلق مشاورت کی سیاسی تجربہ کی روشنی میں وزیراعظم کو مشورہ دے دیا گیا ہے ۔کپتان اورچودھری بردران میں اس نئی قربت کی اپوزیشن میں براہ راست زمہ داری لیگی قائد نوازشریف پر عائدکی جارہی ہے جو مسلم لیگ(ق)کو پنجاب میں کوئی سیاسی جگہ دینت پر تیار نہ ہوئے جب کہ نوازشریف کو مشورہ دیا گیا تھا کہ سیاست میں کچھ حرف آخرنہیں ہوتا ۔ عمران خان سیاسی صورت حال کے تناظر میں تیزی سے سیاسی کارڈز کھیل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق سے رابطوں کے بعد دیگر اتحادیوں سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا گیاہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے بھی جلد ملاقات ہوگی ۔وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ سے بھی رابطے تیز کردئیے ہیں جب کہ جہانگیرترین گروپ کے بعض ارکان بھی وزیراعلی پنجاب سے ملاقات کرچکے ہیں ان ارکان کے گلے شکوے دور کئے جارہے ہیں معاملہ حلقوں کے منصوبوں اور فنڈز سے متعلق ہیں۔ادھرایم کیو ایم بھی نئی سودے بازی کی کوشش میں ہے وہ بھی بلدیاتی انتخابات کے ایجنڈے پرحکمران اتحادسے معاملات طے کرنا چاہتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا جلداجلاس ہوگا سیاسی حلقوں میں دعوی کیاجارہا ہے کہ حکومت کو ریاست کے تما م شراکت داروں کی حمایت حاصل ہے اور جس سفرکا آغاز25جولائی2018سے حکومتی جماعت کے ساتھ ہوا تھا اس ضمن میں سب شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔اتحادیوں کوحکمران اتحادکی بیٹھک میں شرکت پر آمادہ کرلیاگیا ہے۔اپوزیشن کے حلقوں میں دعوی کیا جارہا ہے کہ حکومتی ناؤڈوبنے والی ہے اس ضمن میں سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی انتہائی پرامیددکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما کاموقف ہے کہ حکومت اپنے آخری دنوں میں عوام کو نام نہاد ریلیف دینے کی کوشش کررہی ہے۔ دوسروں کونہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے وزیراعظم خود گھبرائے ہوئے ہیں۔سابق وزیراعظم کے مطابق حکومت کی چار سالہ ناقص کارکردگی رہی ۔ وہ اپنے آخری دنوں میں عوام کی ہمدردی لینا چاہتی ہے۔، عوام نے فیصلہ کردیا ہے جلد پارلیمان بھی عدم اعتماد پر فیصلہ کر دے گی۔حکومت کے لئے سیاسی بارودی سرنگ بن چکی ہے۔ایک وزیرسے جب اس صورتحال کے بارے میں استفسارکیا گیا تو ان کا دیرینہ دعوی تھا کہ ،، یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں ،،عمران خان نے پی ڈی ایم اورپی پی پی کے عوامی مارچ پر پٹرول بم ماردیا ہے، ان کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے۔دوسری طرف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتمادسے متعلق تیاری مکمل کرلی ہے ایکشن کمیٹی نے ارکان کی فہرستیں مرتب کر کے مختلف رہنماؤں کو ان سے مسلسل رابطوں کا ٹاسک دے دیا ہے ارکان کو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے ان سے رابطوں کی باقاعدہ رپورٹس سے آگاہی کی ہدایت کی گئی ہے ،فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے۔ دوطرفہ ممکنہ باغی یاد رکھیں وہ نااہل قراردیئے جاسکتے ہیں ۔اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں مجموعی طور پر توکوئی جان نظر نہیں آتی۔ تاہم بلاول بھٹو اپنی جماعت کی پنجاب میں انٹری کی کوشش کر رہے ہیں ان کی قیادت میں عوامی مارچ سکھرپہنچ چکا ہے اور وہ پرجوش ہیں کہ عوامی مارچ کی وجہ سے حکمران گھبرا گئے، اب ان کا پتلی تماشا نہیں چلے گا، صرف تیر چلے گا۔ آپ اتنے ڈرپوک ہیں کہ آصف زرداری کے انٹرویو کو نشر ہونے سے روکا، ان میں تنقید سننے کا حوصلہ نہیں، کرسی پر مسلط کیا گیا شخص عوام کا نہیں سوچتا، نیا پاکستان کا اصل چہرہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری ہے۔وہ بیانات میں جو بھی شدت پیداکریں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت کے سربراہ بلاول کے بیانات تاحال موضو ع بحث نہ بن سکے ہیں ۔ AA