اسلام آباد (تجزیہ :قاضی سمیع اللہ)حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں اور پیپلزپارٹی میں وزیر اعظم عمران خان اور قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے ٹائم فریم پر تاحال اتفاق ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حزب اختلاف کے اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے بیانیہ میں یکسانیت نہیں پائی جاتی جبکہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن)تحریک عدم اعتماد کے ٹائم فریم کے حوالے سے چپ سادھ رکھی ہے۔دوسری جانب حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن)،جمعیت علمااسلام (ف) اور پیپلزپارٹی اب تک اس بات پر بھی متفق ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی ہے یا پھرقومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے ۔حزب اختلاف کے اتحاد کی اعلی قیادت کے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے موقف کے تناظر میں یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب تاحال عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے ہوم ورک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے ،اگر حزب اختلاف کا اتحاد اس حوالے سے عجلت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس صورت میں اس امر کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا بھی وہی حشر ہوگا جو سینیٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کا ہوا تھا ۔بہر کیف ملکی سیاست میں مچلتی ہوئی ہلچل نے جہاں تبدیلی سرکار غیر معمولی دبا میں نظر آتی ہے وہاں حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی عوامی ساکھ بھی دا پر لگی ہوئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان یا قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف اگلے تین ست چار دنوں میں تحریک عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے جس میں ملک کی خارجہ پالیسی ، معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ عوام میں پائی جانے غیر یقینی صورتحال کو جواز بنایا جاسکتا ہے ۔بہر کیف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد تحریک کی کامیابی اور ناکامی کی صورت میںپیدا ہونے والی صورتحال کے بعد حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کا لائحہ عمل کیا ہوگا اس حوالے سے بھی فی الوقت قیاس آرائیوں کی حد تک حزب اختلاف کا ہوم ورک نظر آتا ہے ،یعنی اس وقت کوئی بھی سیاسی چال حتمی فیصلے میں نہیں ڈھل سکی ہے تاہم ایسی صورتحال میں حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ حکومت بھی مبہم سیاسی چالیں چل رہی ہیں جسے ایسی گیم تھیوری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو اگر نتیجہ خیز ثابت ہوتی بھی ہے تو وہ اپنے اندر بہت سی سیاسی کمزوریوں کی حامل ہوگی ۔