اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر ربیع بن طارق عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی بی اے کی درخواست بھی دیگر پٹیشنرز کے ہمراہ یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت بھی کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر ربیع بن طارق سے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نےپیکا کی سیکشن 20 کو چیلنج ہی نہیں کیا؟ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ دیگر پٹیشنرز نے تو ہتکِ عزت کو کریمنلائز کرنے کو بھی چیلنج کیا ہے۔
بیرسٹر ربیع بن طارق نے جواب دیا کہ ہم نے پورے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کیا ہے۔
درخواست گزاروں کی جانب سے عدالتِ عالیہ میں دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرڈیننس جعلی خبریں روکنے کی آڑ میں عوامی شخصیات کے کام پر بحث کو روکے گا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پبلک آفس ہولڈرز کے کام پر بحث اچھی حکمرانی اور فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہے، جبکہ یہ آرڈیننس آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا قانون ہے جو کالعدم قرار دیے جانے کے قابل ہے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا ہے کہ آرڈیننس کے اجراء کے لیے صدرِ مملکت کے پاس مناسب جواز ہونا ضروری ہے، آرڈیننس کے سیکشن 2 اور 3 معلومات کے حق کو کم کرتے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے ذریعے فراہم کردہ بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے، پیکا ترمیمی آرڈیننس سیلف سینسر شپ کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔