اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کے حوالے سے از سرِ نو پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔
لندن اسکول آف اکنامکس میں 2 روزہ فیوچر آف پاکستان کانفرنس سے خطاب میں جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کچھ ماہ کےلیے آئےتو وہ کچھ نہیں کر سکتا،چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت 3 سال ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ میں سلیکشن کی بنیاد پرتقرریاں نہیں ہونی چاہییں، اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کی پالیسی ازسرِنوتشکیل دی جانی چاہیے اور خواتین ججزکی تقرری سےمتعلق جامع پالیسی ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ کسی قسم کے دباؤکا شکار نہیں ہے، جج اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، جوڈیشل ایکٹوازم جائز ہے لیکن اسے سیاست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ سوموٹو کا اختیارکا ناجائز استعمال ہوتا ہے، اس کا استعمال بڑے بینچزکو کرنا چاہیے، سوموٹوکے بینچ میں کم ازکم 5 یا 7ججز ہونے چاہئیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقدمات نمٹانےکے لیے ایک سال کی مدت مقرر ہونی چاہیے اور مقدمات کے فیصلے سے قبل ثالثی کی روایات کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 70 سال سے عدلیہ میں کوئی مؤثر اصلاحات نہیں ہوئیں لہذا عدلیہ میں مؤثر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔