پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اہپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا، ہم نے سیاست کو گالی بنادیا ہے، اسمبلی کی گیلریز میں اس وقت طلبا جو ملک کا مستقبل ہیں ، وہ بیٹھے ہیں، ہم نے اسی سیاست سےعوام کو تحفظ، ریلیف دیناہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم باہر جوسیاست کریں وہ ہمارا مسئلہ ہے، لیکن ایوان کےاندر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اہپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، حکومت کاکام آگ بجھنا ہے، مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے، ہمیں اپنی ذمہ داریون کو دیکھنا ہوگا،انہیں نبھاناہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت یہ سوچے گی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہےتو یہ ایک دن کی خوشی ہوگی، اگلے دن آپ بھی اسی جیل میں ہوں گے، اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک کیسے آگے بڑھےگا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر حکومت کا کردار یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیں جیل میں بند کیا تھا، اب ہم نے پتھر کا جواب پتھر سے دینا ہے تو ایک دن کے لیے ہم خوش ہوں گے لیکن کل میں اور آپ اسی جیل میں ہوں گے، جب عمران خان وزیراعظم تھے تو میری ان سے صرف اتنی مخالفت تھی کہ جس سسٹم کے لیے میرے خاندان نے قربانیاں دی ہیں، وہ چلے، اسی وجہ سے بنیظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، 18ویں ترمیم کی، این ایف سی ایوارڈ منظور کرایا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پہلے چیف الیکشن کمشنر حکومت کی مرضی سے ہوتا تھا، ہماری ترمیم کے بعد اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت کے بعد تعینات ہوتا ہے، عبوری حکومت میں اپوزیشن، وزیر اعظم کی مشاورت اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپوزیشن دینے سمیت یہ تمام چیزیں ہم نے کروائیں، ہم نے سمجھا اکہ اگر اس ملک نے چلنا ہے تو اس سائیڈ (حکومت) اور اس سائیڈ (اپوزیشن) دونوں کو مل کر چلنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے والد، والدہ کو جیل میں ڈالا، یا آپ کے رہنما چند مہینے کے لیے جیل میں ہیں، آپ ان کا کیس ہر سطح پر لڑیں لیکن یہاں آکر عوام کی خدمت کریں، ان کے کام کریں، ہمارا بھی حکومت سے اختلاف رائے ہوتا ہے، الیکشن مہنگائی کے نکتے پر لڑا، جہاں مناسب سمھا تنقید کی، لیکن وقت آگیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اس بنیادی معاملے پر کیا ہے، وزیر اعظم، ان کی معاشی کی کارکردگی کے بارے میں اس ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ 8مہینے پہلے مہنگائی کی شرح کیا تھی، حکومت نے اپنے لیے بجٹ میں ہدف 12 فیصد لانے کا رکھا تھا، ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا اور مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں ہم، حکومت کے اپنے اراکین اور اپوزیشن کے اراکین حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آر ہے ہیں، وہیں اس بات پر تعریف کرنی چاہیے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور مزید کمی کے لیے تجاویز دینی چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 2013 سے 2018 تک ہم نے انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر اتفاق کے ساتھ جنہوں نے میرے والد کو ساڑھے 11 سال تک جیل میں ڈالا، ان کے ساتھ مذاکرات کرکے، بات چیت کرکے ایسی متفقہ دستاویز لے کر آئے جس سے ہم نے صوبوں کو مضبوط کیا، پارلیمنٹ کو مضبوط کیا، عدالت کو مضبوط کیا، اس سے عوام کو فائدہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اتفاق رائے کے خلاف ایک مخصوص لابی موجود ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ اتفاق رائے جاری رہے، شروع دن سے اس کے خلاف سازش جاری ہے، کبھی افتخار چوہدری کے ذریعے، کبھی انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے سیاسی جماعت کو فائدہ دے کر ہمارے سیاسی نظام کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ پہلے اختلافات ہوتے تھے تو ہم آپس میں بات کرتے تھے، اب ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اگر ایسے چلنا ہے تو چلتے رہیں گے لیکن افسوس ہم ان بچوں کی قسمت کے ساتھ کھیل رہے ہیں جن کے مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر قومی اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ اس ایوان کو متحرک کریں، پھر ہم اس ملک کو متحرک کر سکتے ہیں، اپنی سیاست، اپنے معاملات اور کیسز ہم دیکھ لیں گے، جب تک یہ ایوان فنکشنل نہیں ہوگا، یہ ملک فنکشنل نہیں ہوگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک قابل احترام، سینئر بلوچ سیاستدان نے ایوان سے استعفیٰ دیا، مجھے بہت افسوس ہوا، قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ کچھ ویڈیو ثبوت سامنے آئے ہیں کہ ارکان کو ایوان کےاندر سے نہیں اٹھایا گیا، جو اسپیکر آفس میں موجود ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت شروع ہونے والے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا ایوان اسپیکر کےپیچھے کھڑا ہے، وفاقی وزیر عطااللہ تارڑ کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے شور شرابہ کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پورے واقعے کی تحقیقات ہونی چاہیے، ہم بھاگنے والے نہیں، لیکن جبری گمشدگیاں نہ ہوں۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پرسوں رات یہاں پر نقاب پوش کالی گاڑیوں میں آئے، جو ہمارے اراکین کو اٹھا کے لے گئے۔
علی محمد خان نے مزید کہا کہ اس معاملے پر پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بات کی، اسپیکر چیمبر میں آئی جی اسلام آباد کو بلایا گیا، ہم نے پروڈکشن آرڈرز کی گزارش کی تو اسپیکر نے زبانی آرڈرز جاری کیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ابھی تک اسپیکر کے آرڈرز پر اسلام آباد پولیس نے عمل نہیں کیا، بات ہوئی کہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا، اسپیکر نے کہا کہ استحقاق سے آگے جائیں گے اور ایف آئی آر کریں گے۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ کسی نے بھاگ کر ایوان میں پناہ نہیں لی، ہماری استدعا ہے کہ اراکین کو اجلاس میں پیش کریں، یہ پارلیمان کی بے توقیری ہوئی اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔