وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے افغانستان سے خود بات کرنے کا بیان دیا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان زہر قاتل ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈرز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار 10 اراکین کو پارلیمنٹ پہنچا دیا گیا۔
ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ کی زیر صدارت شروع ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس میں جن پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی میں پہنچایا گیا ہے، ان میں شیخ وقاص اکرم، زین قریشی، ملک اویس، عامر ڈوگر، احمد چھٹہ، زبیر خان، سید احد علی شاہ، سید نسیم علی شاہ، شیر افضل مروت اور یوسف خان شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے گرفتار 10 ارکان کو قائم قام سارجنٹ ایٹ آرمز فرحت عباس کے حوالے کیا گیا۔
گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے گرفتار پی ٹی آئی اراکین پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور انہیں پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں شیر افضل مروت، ملک محمد عامر ڈوگر، محمد احمد چٹھہ، مخدوم زین حسین قریشی، شیخ وقاص اکرم، زبیر خان وزیر، اویس حیدر جھکڑ، سید شاہ احد شاہ ، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے اتوار کو پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رانا ثناء اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، شیر افضل مروت
قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ سے پی ٹی آئی میں نفرت کی جاتی ہے، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائے گا تو وہ ہاتھ روکوں گا، اس دن میں نے بات کی لیکن موقع نہ ملا، میں نے ساتھیوں کو کہا کہ ہمارے پاس گارڈز ہیں میدان کار زار بنا لیتے ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری گرفتاری کیلئے نہیں آئے ،بہر حال مجھے گرفتار کیا اور لے گئے، میرے پاس کلاشنکوف تھے اور پستول تھی ابھی تک کچھ بھی واپس نہیں کیا گیا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ جج جب سے آیا ہے یہی کام کررہا ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ اس جج نے نہیں دیے، رات کو اہلکار آئے اور مجھے ساڑھے نو بجے گاڑی میں بٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لے، مزید کہا کہ وہاں نقاب پوش بیٹھے ہوئے تھے اور اس نقاب پوش کو میں نے پہنچان لیا، اس نقاب پوش نے پستول نکالا اور کہا کہ اگر کوئی بھاگ جاتا ہے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔
اسد قیصر کا اظہار خیال
اجلاس کے دوران اسد قیصر نے پوری پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیز نے 9 اور 10 تاریخ کی درمیانی رات کے ہونے والے واقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا، پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ پارلیمنٹ جیسی بھی ہمیں اس کا احترام ہے، آئینی ترمیم کیلئے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سعد اللہ بلوچ کو بازیاب کرانے کیلئے ان کی فیملی کو اغوا کیا گیا، زور زبردستی سے لانے والے اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی، کیا چیف جسٹس اس قسم کے قانون کے بعد اپنے ایکسٹنشن کیلئے تیار ہوں گے؟ آج اگر وہ فائدہ لینے سے انکار کرے تو کہیں گے کہ بڑا قدم اٹھایا۔
قبل ازیں آج ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب اسمبلی نہ ہو تو آرڈیننس پیش کیا جاسکتا ہے، جو آرڈیننس نگران حکومت کے دور میں آئے وہ ایوان میں پیش کیے گئے ، اب ایوان کی مرضی ہے کہ ان کو اپنائیں یا مسترد کردیں،حکومت کا ان آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایوان کا اختیار ہے کہ آرڈیننسز میں ترمیم کرے منظور کرے یا مسترد کرے۔
فوجداری قوانین میں بڑے عرصے سے اصلاحات نہیں ہوئیں، وزیر قانون
اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ فوجداری قوانین میں بڑے عرصے سے اصلاحات نہیں ہوئیں ہیں، ہم نے جامع پیکج مرتب کیا ہے جو کابینہ میں جارہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج کرنا آسان جبکہ نکالنا مشکل کام ہے، چالان جمع کرانے کے وقت پر کام ہورہا ہے،مزید کہا کہ ٹرائل کے وقت کا تعین بھی کیا جارہا ہے اور اس کو بل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ کی تعداد بڑھانے کی بات ہو تو تنقید شروع ہو جاتی ہے، لوگ بری ہونے تک آٹھ آٹھ سال گزار چکے ہوتے ہیں، کوئی قانون جرگہ کا فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اعلیٰ عدلیہ کو کالونیل دور کے طرز پر چلا رہے ہیں، ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ عام لوگوں کو فائدہ ہو۔
وقفہ سوالات کے دوران وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ مجھے کووڈ کی علامات ہیں لیکن اس کے باوجود میں ایوان کے احترام میں موجود ہوں اور اراکین کے تمام سوالات کے جوابات دینے کیلیے تیار ہوں۔
اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ کیا آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں؟
وزیر توانائی نے بتایا کہ انہیں علامات ہیں لیکن ٹیسٹ پازیٹیو نہیں ہے، ممبر قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ایسا نہ کریں آپ ٹیسٹ کرائیں۔
اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے وزارت توانائی کے سوالات ملتوی کرادیے اور اویس لغاری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
وفاقی وزیر مصدق ملک نے وقفہ سوالات پر جوابات دیتے ہوئے یوان کو بتایا کہ ہم پٹرول ڈالر میں خریدتے ہیں اور بیچتے روپے میں ہیں،جب سے حکومت آئی ہے ڈالر اور روپے کی قدر میں توازن آیا ہے، مئی سے لیکر آج تک تیل کہ قیمت میں47 روپے کمی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ تیل کی قیمتوں کی کمی کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے،ایرانی تیل کی اسمگلنگ بتدریج کم ہورہی ہے،سمگلنگ کو ریگولرائز کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، ہمارے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش 21 دن کی ہے۔
سوالات کا جواب دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہاکہ ہمارے گیس کے ذخائر میں دن بدن کمی ہورہی ہے، اگر اضافی کنکشن دیں گے تو گیس نہیں ملے گی، امپٹورٹڈ گیس جس قیمت پہ آتی ہے وہ آپ خریدنے کیلئے تیار نہیں ہیں، پچھلی حکومت نے گیس کنکشنز پہ پابندی لگائی لیکن یہ درست اقدام ہے۔