facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

آئینی پیکیج میں تبدیلی سے حقیقی مقاصد تبدیل نہیں ہوں گے

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی کی سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر بڑھانے یا آئینی عدالت کے قیام کی ان کی وہ ابتدائی تجویز جو اب ختم کردی گئی ہے اس کا مقصد ایک ہی ہے: کسی جج (یا ججوں) کو موجودہ نظام کو خطرہ بننے یا سیاسی عدم استحکام کا باعث بننے سے روکنا۔

ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا مقصد موجودہ چیف جسٹس کے تسلسل کو یقینی بنانا تھا، جو جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کے طور پر تین سال تک ترقی میں تاخیر کر دیتا۔اب زور ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو گیا تو حکومتی اتحاد یا اسٹیبلشمنٹ میں سے کوئی بھی جسٹس منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری پر اعتراض نہیں کرے گا۔ آئینی عدالت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ کو آئینی اور سیاسی مقدمات سننے کا اختیار نہیں ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کردہ مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سنائے گئے12 جولائی کے فیصلے کو موجودہ نظام کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہے۔

تینوں سیاسی استحکام چاہتے ہیں اور فکر مند ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے کوئی ʼمہم جوئیʼ معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جو اب بہتری کے آثار دکھا رہی ہے۔

مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد، جو آٹھ ججوں نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت میں سنایا، پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان نے شہباز حکومت کے خاتمے اور اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے قیام کی باتیں شروع کیں۔

دوسری طرف، مسلم لیگ ن کو تشویش ہونے لگی کہ 8 فروری کے انتخابات کے تنازعات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے حق میں چلی جائے گی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے طاقت کے مراکز کو بھی پریشان کر دیا۔

سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں اصلاحات کے لیے آئینی ترمیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔اکثریتی فیصلے کے مصنف جسٹس منصور علی شاہ تھے۔

حکومت کی آئینی ترمیمی پیکیج کو پاس کرنے میں حالیہ ناکامی کے بعد ممکنہ طور پر اگلے ہفتے اب دوبارہ کوشش کی جائے گی ۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے چیف وہپ طارق فضل چوہدری نے دی نیوز کو بتایا – بغیر یہ بتائے کہ آئینی پیکیج کب پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا – کہ حکومت کے پاس پلان اے اور پلان بی ہیں۔

ان کے مطابق پلان اے کے تحت ہدف مولانا فضل الرحمان کی حمایت سے آئینی پیکیج کو منظور کرانا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو “ہمارے پاس پلان بی ہے،” چوہدری نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کہ پلان بی کیا ہے۔

پہلی کوشش میں شرمناک ناکامی کے بعد، مسلم لیگ ن نے اب یہ معاملہ پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کر دیا ہے، تاکہ آئینی پیکیج کے لیے زمین ہموار کی جائے جو کہ اب آئینی عدالت پر مرکوز ہے۔

بلاول اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما اس وقت آئینی عدالت اور عدلیہ میں دیگر اصلاحات کے حق میں ایک بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔

بلاول ملک کے مختلف حصوں میں وکلاء کے اداروں سے خطاب کر رہے ہیں۔وہ اصرار کرتے ہیں کہ سب کو وفاقی آئینی عدالت کو قبول کرنا ہوگاجس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔

ایک حالیہ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور وہ اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک آئینی عدالت قائم نہیں ہو جاتی۔

(انصار عباسی)