اسلام آباد (نیوز ڈیسک) “حکومتی ماہرین” کو توقع ہے کہ وہ زیادہ تردد کے بغیر دونوں پارلیمانی ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے جس سے آئندہ ہفتے مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر ہی 26ویں آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کر دیا جائے گا۔
اس مسودے میں وہ تمام ترامیم شامل ہونگی جو شروعاتی تجاویز کا حصہ تھیں، دو تہائی کا بندوبست نہ ہوسکا تو بادل نخواستہ “کم از کم” کے طور پر مولانا کی ترامیم منظور کرالی جائیں گی جن میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام یقینی بنایا جائے گا، بقیہ ترامیم منظور کرانے پر “کام” جاری رہے گا۔
وفاداریاں بدلنے کی پاداش میں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے دو ارکان کے بارے ریفرنس کا الیکشن کمشن تیس دنوں میں فیصلہ کریگا دونوں ارکان اپنی نشستیں بچانے کے لئے اس دوران نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین سے رجوع کر سکتے ہیں۔
آئین کی 26ویں ترمیم کے حوالے سے حکمران اتحاد نے جس حکمت عملی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی رو سے دو مسودات حکومتی ماہرین کے سامنے ہونگے جن میں سے ایک مسودے کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرنے سے پہلے آخر وقت میں اپنے ارکان پارلیمنٹ کو پیش کیا جائے گا۔
حد درجہ قابل اعتماد پارلیمانی ذرائع نے نجی خبررساں ادارے کو بتایا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جنہوں نے گزشتہ ماہ حکومتی اتحاد کو عدالتی اصلاحات کے لئے آئینی ترامیم کے سوال پر ہزیمت سے دوچار ہونے پر مجبور کردیا تھا بدستور اپنے موقف پر اڑے ہیں اور وہ صرف ایسی آئینی ترمیم میں مدد دینے کے لئے تیار ہیں جس میں وفاقی آئینی عدالت قائم تو ہو لیکن اس کا سربراہ کسی خاص عدالتی شخصیت کو نہ بنایا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ ’’کم از کم‘‘ ہے جس کے لئے حکومتی اتحاد بادل نخواستہ آمادہ ہوسکتا ہے وہ جن دوسرے غیر معمولی نکات کو اپنی آئینی ترامیم کا حصہ بنانے کا خواہاں ہے وہ بعد ازاں کسی موزوں موقعہ تک کے لئے معرض التوا میں ڈال سکتاہے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی ماہرین کو توقع ہے کہ وہ اپنی ’’شبانہ روز کاوشوں‘‘ سے دونوں ایوانوں میں اس قدر ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت کے ارکان کا ووٹ ان کی ضرورت نہیں رہے گا اس صورت میں حکومتی آئینی ترامیم میں وہ تمام نکات شامل ہونگے جو اس کی ابتدائی تجاویز کا حصہ تھے یہ قدرے ’’کٹھن‘‘ ترامیم ہونگی۔
دوسری جانب حکومتی ’’ماہرین‘‘ نے آئین کی دفعہ 63۔اے کے تحت ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے ارکان پر موجودہ پارلیمنٹ گروپس کی قیادت کی ’’وھپ‘‘ کا پابند ہونے کے بارے میں قانونی مشق مکمل کرلی ہے ان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ارکان کی وابستگیوں کو جس انداز میں اپنی دستاویز میں ظاہر کیا ہے وہ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ تفصیلات سے مطابقت نہیں رکھتی ہو۔
صورتحال اس وقت مزید دلچسپ ہوجاتی ہے جب مخصوص نشستوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ میں دائر الیکشن کمیشن کی معروضات اور نظرثانی کی درخواستوں کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ ان حالات میں اگر پارلیمنٹ کے غیر سرکاری ارکان حکومتی آئینی ترامیم کی حمایت میں ووٹ دیتے ہیں تو ان کی رکنیت کو بچانے کے لئے طویل اور بڑی عدالتی جنگ کی گنجائش موجود ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پارلیمانی ایوانوں کے اجلاس بلائے جانے کا قطعی فیصلہ آئندہ پیر کو ہوجائے گا جس کے بعد ارکان کو یکجا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔
اس اثناء میں پتہ چلا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کے اپنی جماعت کے بلوچستان کے حلقہ کوئٹہ این اے 262سے رکن عادل خان بازائی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے اپنی پارٹی کے پنجاب کے حلقہ گجرات این اے 62سے رکن الیاس چوہدری کی رکنیت ختم کرنے کے لئے ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
ان ارکان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے قومی بجٹ کی منظوری کے موقع پر اپنی جماعتوں کی ہدایت کو نظرانداز کردیا تھا اس طرح وہ آئین کی دفعہ 63۔اے کی زد میں آتے ہیں دونوں کو اس بارے قبل ازیں اظہار وجوہ کے نوٹس دیئے گئے تھے جن کے باے میں ان کے جو اب اطمینان بخش نہیں تھے۔