اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے پر جمعیت عملائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے لیے ایک اور کوشش کی گئی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے جے یو آئی (ف) کے امیر کی رہائش گاہ کا دورہ کیا، جہاں انہیں فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے حکومت کی جانب سے آج بلائی جانے والی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) میں شرکت کی دعوت دی۔
رپورٹس کے مطابق اجلاس میں کئی دیگر امور خاص طور پر مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملہ پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے دعوت قبول کرتے ہوئے نائب وزیراعظم کو کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کروائی۔
توقع کی جارہی ہے کہ حکومت رواں ہفتے کے دوران متنازع آئینی پیکیج متعارف کرائے گی جس کا مقصد آئینی عدالت قائم کرنا اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار دوبارہ واضح کرنا ہے، آخری ناکام کوشش 14 اور 15 ستمبر کو کی گئی تھی جب حکومت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس 336 رکنی پارلیمان میں 214 ووٹ موجود ہیں، حکومت کو متعین کردہ تعداد تک پہنچنے کے لیے کم از کم 10 مزید ووٹوں کی ضرورت ہے، لہٰذا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جے یو آئی (ف) کے ووٹ درکار ہیں۔
اب تک جے یو آئی (ف) کا مؤقف غیر یقینی کا شکار رہا ہے۔ ایک دن مولانا فضل الرحمٰن نے پیکج کی حمایت پر آمادگی ظاہر کی لیکن دوسرے ہی دن اس کی مخالفت کردی۔
اسی اثنا میں پیپلز پارٹی کے ہیومن رائٹس سیل نے کہا تھا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے جس میں وفاقی آئینی عدالت قائم کرکے آئین کے حوالے سے افراتفری کو ختم کیا جائے گا اور ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو ہموار کیا جائے گا تاکہ ججوں کے خطرناک رجحان سے بچا جاسکے۔
گزشتہ روز زیبسٹ میں سول سوسائٹی کے ساتھ گفتگو کے دوران پی پی پی ہیومن رائٹس سیل کے صدر اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ججوں کی تقرری کو خطرناک حد تک مرکزی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے خود سے سو سے زائد تقرریاں کی تھیں اور سو سے زائد ججوں کو برطرف کیا تھا
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کسی ایک فرد کی طرف سے منتخب ججوں کی اہلیت اور دیانت داری پر سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ عدلیہ نے جرنیلوں اور خود کو آئین کو دوبارہ لکھنے اور نافذ کرنے کی اجازت دی لیکن عوام کو پارلیمنٹ میں اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے یہ حق استعمال کرنے سے روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک آئینی عدالت کی ضرورت ہے تاکہ عام مقدمات کا بوجھ کم کیا جاسکے اور آئینی مسائل کو حل کرنے میں صوبائی توازن کا عنصر شامل کیا جاسکے۔
انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ اگر سینیٹ قائم کر کے صوبوں کے درمیان سیاسی طاقت کو برابر کیا گیا ہے تو اس میں تمام صوبوں کے ججوں کی یکساں تعداد فراہم کر کے عدالتی طاقت کو بھی صوبوں کے درمیان متوازن کیوں نہیں کیا جانا چاہیے۔