اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین سے انحراف کے حوالے سے آرٹیکل 63-اے پر 17 مئی 2022 کے اکثریتی فیصلے نے سیاسی پارٹی کے سربراہ کو ایک آمر میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیوں متفقہ طور پر 3 اکتوبر کے سابقہ حکم کو کالعدم قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 63-اے کے تحت پارٹی لائن کے برعکس ڈالے گئے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ اس سے قبل اکثریتی فیصلے نے اراکین پارلیمنٹ کے لیے مکمل باپسندیدگی کا اظہار کیا جیسا کہ اس میں کہا گیا کہ پاکستان اور اس کی پارلیمنٹ کی تاریخ میں صرف ایک بار کوئی رکن پارلیمنٹ ’ایک باضمیر اعتراض کرنے والا‘ رکن بننے کے قریب پہنچا جس اس نے انحراف کا راستہ اختیار کیا اور آرٹیکل 63-اے کے تحت سیٹ گنوا بیٹھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس طرح کی توہین کا اظہار افسوسناک ہے، ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ان سیاستدانوں نے حاصل کیا تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے قائد (قائد) محمد علی جناح کے جھنڈے تلے جمع ہوئے تھے اور جنہوں نے آئینی راستے پر سختی سے عمل کیا تھا‘۔
فیصلے میں اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے لیے بھی کچھ نکتہ چینی کی گئی کیونکہ اس میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حوالہ دیا گیا تھا، اس میں کہا گیا کہ تینوں نے آئین کے تحت کام کرنے کے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ آرٹیکل 63-اے ’سادہ، واضح اور غیر مبہم‘ اور واضح طور پر خود ساختہ طور پر پر عملدرآمد کرنے والا تھا، اسے تشریح کی ضرورت نہیں تھی تاہم اسے ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ پہلے اکثریتی فیصلے کے ذریعے ایک نیا مضمون سامنے آیا۔
اس سے پہلے کے فیصلے نے ناصرف آرٹیکل 63-اے کی واضح دفعات کی نفی کی بلکہ آئین کی دیگر دفعات یعنی آرٹیکل 91(7)، آرٹیکل 95، آرٹیکل 130(7) اور آرٹیکل 136 کی بھی نفی کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ پارٹی سربراہ کا کسی رکن کے انحراف کا اعلامیہ جاری کرنے کا دائرہ اختیار اس سے پہلے کے فیصلے میں پارٹی سربراہ کے بجائے سپریم کورٹ کو دیا گیا تھا، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اس دائرہ اختیار سے ہٹا دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ آرٹیکل 63-اے(5) کے تحت سپریم کورٹ اپیلیٹ کے دائرہ اختیار کو بھی مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر کوئی عدالت اپنے آپ کو دائرہ اختیار فراہم کرتی ہے، تو یہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اسی طرح اکثر ججوں آئین میں استعمال کی جانے والی مخصوص زبان کو نوٹ نہیں کیا، آرٹیکل 63-اے(4) میں سیز(seize) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’بطور رکن حق ضبط‘ جبکہ لفظ ’نااہل‘ کا استعمال ’رکنیت سے نااہلی‘ کے آرٹیکل 63 میں استعمال کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ (انحراف کی بنیاد پر) آرٹیکل 63 میں ممبر کے حق ضبط کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ناکہ یہ کہ منحرف ہونے والے کو نااہل قرار دیا جاتا ہے یا نااہلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ اس فیصلے میں کہا گیا۔
واضح طور پر بیان کرنے کا مطلب ہے کہ سیز کا مطلب روکنا، ختم کرنا یا منسوخ کرنا جبکہ نااہل یا نااہلی کا مطلب نااہل قرار دینا، ان فٹ قرار دینا یا استحقاق سے محروم کرنا ہے، یوں آئین میں استعمال ہونے والے الفاظ اور زبان، اس کے استعمال کے مقام اور سیاق و سباق کو تینوں اکثریتی ججوں نے نظرانداز کر دیا۔
فیصلے میں آئینی دفعات کو اخلاقیات اور ذاتی پسند سے بدلنے کے رجحان پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔
فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا کہ گوکہ قانون ساز اخلاقی اصولوں کو قوانین میں تبدیل کر سکتے ہیں تاہم، عدالتیں اس بات کو مدنظر رکھتی ہیں کہ کیا قانونی یا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے جس کا اطلاق عدالتیں کرتی ہیں اور اگر قانون میں کوئی ابہام ہو تو جج اس کی تشریح کرتا ہے، حکم میں کہا گیا کہ یہ بھی قانون کے دائرہ اختیار کے اندر اور تشریح کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
تفصیلی فیصلے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ آئینی یا قانونی بنیاد کے بجائے اکثریت کے فیصلے میں اخلاقیات اور غیر قانونی اصطلاحات کی بھرمار ہے، جیسے کہ صحت مند (41 بار)، غیر صحت مند (پانچ بار)، vice(نو بار)، برائی (آٹھ بار) کینسر (آٹھ بار)، خطرہ (چار بار) وغیرہ کا استعمال کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے مطابق اس سے قبل دیا گیا فیصلہ آئین کی واضح زبان اور مینڈیٹ کے ساتھ ساتھ لارجر بینچ کے سابقہ فیصلوں کے بھی خلاف تھا۔
چیف جسٹس نے اپنے تفصیلی فیصلے اختتام پر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 17 مئی کے فیصلے میں اقلیتی ججوں کا فیصلہ برقرار ہے۔