اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج عطاء ربانی نور مقدم قتل کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے شریک ملزمان خانساماں جمیل اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی جبکہ تھراپی ورکس کے ملازم تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
دورانِ سماعت ملزم ظاہر جعفر، اس کے والد ذاکر جعفر اور گھریلو ملازمین کو عدالت میں پیش کیا گیا، ملزمان کو جیل کی وین میں اڈیالہ جیل سے ایف ایٹ کچہری لایا گیا۔
جج عطاء ربانی نے پولیس کو حکم دیا کہ میں نے ملزمان سے بات کرنی ہے، سب باہر چلے جائیں۔
جج کے حکم پر کمرۂ عدالت سے میڈیا، وکلاء اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا۔
شوکت مقدم کو انصاف کی امید
عدالت پہنچنے پر مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب پُرامید ہیں کہ نور مقدم قتل کیس میں آج انصاف ملے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پُر امید ہوں کہ قاتل اور جرم کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی اور قانون کی بالا دستی ہو گی، دعا ہے کہ نور مقدم قتل کیس میں فیصلہ انصاف پر مبنی ہو۔
نور مقدم قتل، کب کیا ہوا؟
گزشتہ برس 20 جولائی2021ء کو عیدالاضحیٰ کے روز اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں نور مقدم کے بہیمانہ قتل نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
پولیس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر واقعے سے قبل اپنے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سے مسلسل رابطے میں رہا۔
پولیس کے مطابق ملزم کے والدین نے پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے تھراپی ورکس سے رابطہ کیا، تھراپی ورکس کی ٹیم جائے وقوع پر پہنچی تو ملزم ظاہر جعفر نے مبینہ طور پر تھراپی ورکس کے ملازم امجد کو چاقو کے وار کر کے زخمی کر دیا، پولیس کے پہنچنے تک نور مقدم کا قتل ہو چکا تھا اور مقتولہ کی سربریدہ لاش وہاں موجود تھی۔
پولیس نے ملزم کو خون آلودہ قمیض میں گرفتار کر کے جائے وقوع سے آلۂ قتل بھی برآمد کیا۔
شواہد چھپانے اور جرم میں معاونت کے الزام میں پولیس نے قتل کے 5 روز بعد 25 جولائی کو ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سمیت دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا۔
واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نورمقدم کو پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر زخمی حالت میں گھر سے نکلنے کی کوشش کرتے اور ظاہر جعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا۔
فوٹیج میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے جنہوں نے کسی موقع پر ملزم کو روکنے یا نور مقدم کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
کیس کا باقاعدہ ٹرائل 20 اکتوبر 2021ء سے شروع ہوا اور 25 سماعتوں پر مشتمل رہا۔
نور مقدم قتل کیس کا اسپیڈی ٹرائل 4 ماہ 8 دن جاری رہا،جس کے دوران 19 گواہان کے بیانات قلم بند ہوئے۔
پہلی پیشی سے ہی ملزم کبھی پولیس اور کبھی عدالت کے جج سے الجھتا اور کمرۂ عدالت میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا رہا۔
دورانِ سماعت مرکزی ملزم نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا، پولیس بھی ملزم کو کبھی اسٹریچر تو کبھی وہیل چیئر پر عدالت لاتی رہی۔
ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کے لیے درخواست بھی دائرکی جسے عدالت نے مسترد کر دیا، تاہم جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہر جعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قرار دے دیا۔
19 گواہوں پر جرح مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ جاری کیا گیا جس میں ظاہر جعفر اپنے ہی اعترافِ جرم سے مکر گیا۔
ظاہر جعفر نے ٹرائل کے دوران کیس کو غیرت کے نام پر قتل کا رخ دینے کی بھی کوشش کی، پھر مقتولہ پر منشیات کی پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگایا۔
مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ نور مقدم قتل کیس میں سی ڈی آر، ڈی وی آر، فارنزک اور ڈی این اے پر مبنی ٹھوس شواہد سائنسی ٹیکنالوجی سے تصدیق شدہ ہیں۔
پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ ظاہر جعفر جائے وقوع سے آلۂ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا، اس کی قمیض خون آلود تھی، عدالت اسے مثالی کیس بنانے کے لیے سخت سزا دے۔
عدالت نے 1روز قبل (22 فروری کو) نور مقدم کیس کا محفوظ فیصلہ کر لیا تھا جو آج سنایا گیا۔