بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھی اس نے ایسا کیا، اگر ایگزیکٹو کو اپنی نجی ساکھ کا اتنا خیال ہے تواس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کےخلاف آواز اٹھانے والوں کےخلاف کارروائیاں کی گئیں، لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کی ۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف تمام درخواستیں یکجا کرکے سماعت کی گئی

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللّٰہ بابر اور پی ایف یو جے کے وکلاء بھی عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس آج پہلے ہی سماعت کے لیے مقرر ہے ان کیسز کو بھی کلب کر دیتے ہیں جس کے بعد عدالت نے ناصر زیدی کی درخواست سمیت تمام درخواستیں یکجا کرکے سماعت کا آغاز ساڑھے 11 بجے کیا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اختلاف رائے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بات تشویشناک ہے کہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نا دے؟دنیا میں عدالتیں ایسا کرچکی ہیں۔

عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نا دے؟ جسٹس اطہر من اللّٰہ

کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، لیکن ان کے خیال سے یہ غیرآئینی نہیں، قانون کے غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں،میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔

عدالت نے کہاکہ برطانیہ میں بادشاہت بچانے کیلئے ہتک عزت کے قانون کو کرمنلائز کیا گیا تھا بعد میں ختم کردیا گیا، اٹارنی جنرل نے اس پر کہاکہ برطانیہ میں احتساب عدالتیں بھی نہیں ،وہاں حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو ماحول بنا ہوا ہے اور معاشرے میں جتنی نفرت ہے اس میں آپ کیا توقع کرتے ہیں؟ آپ کو اندازہ ہے کہ ترمیم میں پبلک باڈیزکی ساکھ کو بھی بچانے کی کوشش کی گئی ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی نے کوئی تنقید کی تو وہ فوری گرفتار ہو جائے گا، عدالت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سوشل میڈیا پرکیا ٹرینڈ چل رہا ہے۔

نیب اور اس کے قانون نے جتنا نقصان پہنچایا اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتے، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل خالد جاویدنے کہا کہ میں تو نیب کے قانون میں بھی گرفتاری کے اختیار کے خلاف تھا، چیف جسٹس بولے جتنا نقصان نیب اور اس کے قانون نے پہنچایا ہے، اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتے۔

خالد جاوید خان نے کہاکہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہوگا،جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہاکہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا،بلال غوری نے ایک کتاب سے پڑھ کر تاریخی حقائق بیان کیے اور ایف آئی اے نے کارروائی کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔

عدالت نے کہا کہ پبلک باڈیز یا اداروں کا کون سا بنیادی حق ہوتا ہے؟ انہیں تو تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے،اس آرڈیننس کو پڑھیں تو نظرآتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی ہے،یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈیننس لے کر آئے؟ یوگنڈا میں بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہاکہ بیلجیئم، جرمنی، آئس لینڈ میں ہتک عزت کا جرم کرمنلائزڈ ہے،چیف جسٹس بولےآپ وہاں کی عدالتوں کے فیصلے بھی پڑھ لیں،کوئی شکایت کرے کہ حکومتی رکن نے یہ بات کی ہے تو کیا آپ انہیں گرفتار کریں گے؟

یہ روز سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں،لطیف کھوسہ

درخوست گزار وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ یہ روز سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں، اٹارنی جنرل بولے ایسا نہیں کہنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہااٹارنی جنرل صاحب،آپ کے لیے بہت مشکل ٹاسک ہے۔

سردار لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہاکہ ایف آئی والے میرے کلائنٹ محسن بیگ کے گھرسے لیپ ٹاپ بھی لے گئے،چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہاکہ آپ تو جرنلسٹس کے سورسز پربھی پہنچ گئے ہیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صحافیوں سے ان کا سورس نہیں پوچھا جاسکتا۔

جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہاکہ جو بھی حکومت میں ہو وہ آزادی اظہار رائے کو پسند نہیں کرتا،نظر آرہا ہے کہ گھٹن کا ماحول ہے،اگر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ ہوتی تو یہ ملک ٹوٹتا نہیں۔

سماعت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس دوران ایف آئی اے کوئی گرفتاری نہیں کرے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سے متعلق آپ کا آرڈر موجود ہے اس میں توسیع کر دیں، اگر ایف آئی اے نے ایسا کیا تو میں کورٹ میں نہیں آؤں گا، پیکا ترمیمی آرڈیننس کے اثرات اور نتائج کو کابینہ ارکان سے ڈسکس کروں گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق درخواستوں کی مزید سماعت 10 مارچ تک ملتوی کر دی۔