اسلام آباد(طارق محمود سمیر)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس میں دہشتگردی کیخلاف فوج کی کارروائیوں ،افغانستان کے اندر سے دہشتگردوںکے حملوں ،سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمیدکے فیلڈکورٹ مارشل سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی ، گزشتہ کچھ عرصے سے فوج کے ترجمان ہر دو ہفتے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر کے مختلف ایشوز پر فوج کے موقف سے قوم کو آگاہ کرتے ہیں ، پریس کانفرنس میں انہوں نے بلوچستان کے حالیہ واقعات کا بھی خصوصی تذکرہ کیا ۔بلوچستان کی صورتحال گزشتہ کئی سالوں سے خراب چلی آرہی ہے اور اس میں شدت اس وقت آئی جب فوجی آمر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کی موت کا واقعہ پیش آیا ، اس کے بعد سے اب تک حالات کنٹرول نہیں ہوپا ر ہے ،بلوچستان کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اے پی سی ہویا پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس فوری طور پر بلا کر بلوچستان کے نوجوانوں کے تحفظات دور کئے جانے چاہئیں ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے فیض حمیدکے کورٹ مارشل سے متعلق تفصیل بیان کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں نہ یہ کسی جماعت کی مخالف ہے اور نہ ہی طرفدار ، جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف غفور،لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور دیگر اعلیٰ افسران فوج کے ترجمان تھے تو وہ بھی یہی کہتے تھے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ، جب ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شکایات کرتی ہے تو یہی ترجمان کہا کرتے تھے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن فیض حمیدکی گرفتاری کے بعد جوکچھ میڈیا میں آیا اس میں ٹاپ سٹی کے علاوہ فیض حمیدکے سیاست میں ملوث ہونے اور تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کی کہانیاں منظرعام پر آئی ہیں ، اسی طرح کی کہانیاں سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ مرحوم نے بھی 2014کے دھرنے کے بارے میں بیان کی تھیں۔انہوں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر)ظہیر الاسلام کا نام لیکرکچھ انکشافات کئے تھے مگر افسوس ان انکشافات پر اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے ہی وزیرکوکابینہ سے برطرف کردیا ۔ ڈی جی آئی ایس پی آرسے عمران خان سے متعلق جب ایک سوال کیا گیا کہ وہ ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں فوجی تحویل میں دے دیا جائے گا جس پرترجمان نے کھل کر تو کوئی بات نہیں کی تاہم یہ واضح کہا کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ امکانات موجود ہیںکہ 9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے اور فیض حمیدکے بیان کی روشنی میں عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ 2022کو جب عمران خان کیخلاف عدم اعتمادکی تحریک پیش ہوئی تو فوج نے خودکو سیاسی معاملات سے الگ کیا حالانکہ عمران خان بار بار فوجی قیادت سے عدم اعتماد کی تحریک واپس کرانے اور حکومت کا ساتھ دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔جب سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے یہ مطالبہ پورا نہیںکیا تو عمران خان نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے اپنی حکومت گرنے کی ذمہ داری امریکہ اور فوج پر ڈال دی تھی۔اس وقت بلوچستان کی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر مشاورت ہورہی ہے ، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بلوچستان کی صورتحال بہتر بنانے کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن اے پی سی بلانے پر متفق ہوئے ہیں اور سپیکر اس ضمن میں اپنا کردارادا کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے معاملے کوسنجیدگی سے لینا ہوگا








