بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

یوٹیوبر عادل راجہ کیخلاف برطانیہ میں ہتکِ عزت کی کارروائی کا آغاز ہوگیا

لندن:برطانوی عدالت میں یوٹیوبر اور سابق فوجی افسر عادل فاروق راجہ کے خلاف ہتکِ عزت کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی، مقدمہ ریٹائرڈ برگیڈیئر راشد نصیر کی جانب سے دائر کیا گیا ہے، جن کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات لگائے گئے۔

برطانوی دارالحکومت لندن میں رائل کورٹس آف جسٹس میں ریٹائرڈ برگیڈیئر راشد نصیر اور برطانیہ میں مقیم سابق فوجی افسر عادل فاروق راجہ کے درمیان ہتکِ عزت کے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔

یہ کارروائی 24 جولائی تک جاری رہے گی اور اس میں ان الزامات پر غور کیا جا رہا ہے جو عادل راجہ نے مبینہ طور پر ریٹائرڈ برگیڈیئر نصیر کے خلاف سوشل میڈیا پر لگائے تھے، برگیڈیئر نصیر کا مؤقف ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے دیے گئے۔

عادل راجہ جو خود کو انکشاف کرنے والا کہتے ہیں، ان پر سوشل میڈیا پر متعدد ہتک آمیز بیانات دینے کا الزام ہے، جن میں بدعنوانی، انتخابی عمل میں مداخلت، عدالتی نظام پر اثراندازی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے دعوے شامل ہیں، جنہیں ریٹائرڈ برگیڈیئر نے سختی سے مسترد کیا ہے۔

عدالت میں ریٹائرڈ برگیڈیئر ذاتی طور پر پیش ہوئے، جب کہ عادل راجہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، ان کے گواہوں میں سابق احتساب مشیر شہزاد اکبر عدالت میں موجود تھے، جب کہ صحافی شاہین صہبائی اور سید اکبر حسین امریکا سے آن لائن شامل ہوئے۔

ریٹائرڈ برگیڈیئر نے برطانیہ کی ہائی کورٹ کو بتایا کہ عادل راجہ کی جانب سے آن لائن لگائے گئے الزامات کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کو دھمکیوں، ہراسانی، بدسلوکی اور پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

مقدمے کے پہلے دن گواہی دیتے ہوئے برگیڈیئر نصیر نے کہا کہ راجہ کی جانب سے کیے گئے تقریباً ایک درجن آن لائن دعوؤں نے ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔

دورانِ سماعت مدعا علیہ کے وکیل، سائمن ہارڈنگ نے برگیڈیئر نصیر سے شدید نقصان کے دعوے پر جرح کی اور سوال کیا کہ وہ ان فون کالز کا ثبوت کیوں نہیں لائے، جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں برطانیہ میں مقیم افراد کی جانب سے راجہ کے بیانات کے بعد موصول ہوئیں۔

برگیڈیئر نصیر نے جواب دیا کہ اگرچہ ایسی کالز ہوئیں، تاہم وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو مزید خطرات یا آن لائن حملوں سے بچانے کے لیے ان کی تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہراسانی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب عادل راجہ نے مبینہ طور پر ان کے بیٹے اور اہل خانہ کی تصاویر شائع کیں، جس کے باعث انہیں اپنے بچوں کے تعلیمی منصوبے تبدیل کرنے پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص، جس نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی، عادل راجہ کا پیروکار تھا، وہ گرفتار ہوا اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ راجہ کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں سے متاثر ہو کر ایسا کرنا چاہتا تھا۔

برگیڈیئر نصیر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بارے میں جھوٹے الزامات پھیلائے گئے، جن سے ان کی اور ان کے خاندان کی جان کو خطرہ لاحق ہوا، ان کی بیٹی کو کنگز کالج لندن اور بیٹے کو ایک اور برطانوی یونیورسٹی سے داخلہ ملا تھا، لیکن عادل راجہ کے رویے کے بعد انہوں نے انہیں امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے مطابق برطانیہ میں ان کے دوست، رشتہ دار اور وہ لوگ جن کے ساتھ وہ انٹیلی جنس میں کام کر چکے ہیں، سب نے ان سے رابطہ کیا جب راجہ نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم شروع کی۔

سماعت کے آغاز پر جج نے عادل راجہ کے الزامات سے متعلق شواہد پر وضاحت طلب کی، جن میں پاکستان کے 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ مداخلت بھی شامل ہے۔

عدالت یہ جائزہ لے رہی ہے کہ آیا یہ بیانات حقائق پر مبنی ہیں، رائے کی شکل میں ہیں یا جھوٹی معلومات، اور کیا یہ برطانوی قانون کے تحت سچ یا عوامی مفاد کے دفاع کے زمرے میں آتے ہیں۔

یہ مقدمہ برطانوی ہائی کورٹ کے کنگز بینچ ڈویژن میں اگست 2022 میں دائر کیا گیا تھا، 2024 میں عدالت نے قرار دیا کہ عادل راجہ کے 10 میں سے 9 بیانات برطانوی قانون کے تحت ہتکِ عزت کے زمرے میں آتے ہیں، راجہ نے مقدمہ خارج کروانے کی کوشش کی تھی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

رواں برس اپریل میں عدالت نے عادل راجہ کو قانونی فیسوں اور اخراجات کے طور پر 16 ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم ادا کرنے کا حکم دیا، جب کہ مئی میں عدالتی کارروائی میں تاخیر پر مزید 6 ہزار 100 پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا گیا۔

مقدمے کے دوران دونوں فریقین اپنے گواہوں کے بیانات پیش کریں گے، جن میں سے بعض آن لائن گواہی دیں گے۔

قبل از مقدمہ ایک سماعت میں عادل راجہ نے الزام لگایا کہ ان کے بعض گواہوں کو پاکستان میں ہراساں کیا جا رہا ہے، عدالت نے ان خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے بعض حفاظتی اقدامات کی منظوری دی، جن میں بیرونِ ملک سے ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی کی اجازت بھی شامل ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ اس نکتے پر منحصر ہوگا کہ آیا عادل راجہ اپنے الزامات کو شواہد کے ذریعے ثابت کر سکتے ہیں اور آیا ان کے بیانات برطانوی قانون کے تحت سچ یا عوامی مفاد کے قانونی معیار پر پورا اترتے ہیں۔
مقدمہ تاحال جاری ہے۔