بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

’جنگ بندی کے دوران افغان سرزمین سے حملہ، پاکستان کی کارروائی میں درجنوں دہشتگرد ہلاک‘

قطر کے وزیرِ دفاع کے معنی خیز بیان نے واضح کیا کہ اب نرمی ختم ہو چکی ہے، پاکستان نے جمعہ کے روز ایک بار پھر افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حملے شمالی وزیرستان میں ایک دہشتگرد بم و گولا باری کے حملے کے فوراً بعد کیے گئے، جس کا نشانہ ایک فوجی تنصیب تھی، اور یہ واقعہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان دو روزہ جنگ بندی میں توسیع کے چند گھنٹے بعد پیش آیا تھا۔

انگور اڈہ کے علاقے اور افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ارگون اور برمل اضلاع سے واقعات کی اطلاع ملی، جہاں سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر درست نشانہ لگا کر کارروائیاں کی گئیں، جن میں درجنوں دہشتگرد مارے گئے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آریانا نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر کوئی افغانستان پر حملہ کرے گا تو ہماری افواج جواب دینے کے لیے تیار ہیں، تاہم پاکستانی سیکیورٹی ذرائع نے نشاندہی کی کہ افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدہ دہشت گرد گروہوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، مگر حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشت گردوں نے میرعلی کے علاقے میں کھدی قلعے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، جہاں ایک خودکش حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی فوجی کیمپ کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔
اگرچہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے نقصان کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا، لیکن سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا، اور تمام حملہ آور مارے گئے۔

یہ حملہ جمعہ کی صبح شروع ہوا، مقامی ذرائع نے زوردار دھماکے اور اس کے بعد شدید فائرنگ کی اطلاع دی، کیوں کہ دہشت گرد کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، ذرائع کے مطابق تمام 4 حملہ آور ہلاک کر دیے گئے۔

بھاری قیمت چکانی ہوگی
’ایکس‘ پر جاری ایک معنی خیز بیان میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کابل کے ساتھ تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہیں گے، اب احتجاجی مراسلے یا امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، کوئی وفد کابل نہیں جائے گا، جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا منبع ہوگا، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

خواجہ آصف نے افغانستان پر الزام لگایا کہ وہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، اور کہا کہ اسلام آباد اب ماضی جیسے تعلقات رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سرزمین پر موجود تمام افغانوں کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا، اب ان کی اپنی حکومت (یا خلافت) کابل میں موجود ہے، اسلامی انقلاب کو 5 سال ہو چکے ہیں، اب انہیں پاکستان کے ساتھ ہمسایوں کی طرح رہنا ہوگا۔
اپنے بیان میں وزیرِ دفاع نے پاکستانی وفود کے کابل کے دوروں کی تفصیلات اور افغانستان سے سرگرم گروہوں کے حملوں اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار بھی فراہم کیے۔

طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد، پاکستانی وزرائے خارجہ نے 4 بار کابل کا دورہ کیا، وزرائے دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے دو بار، خصوصی نمائندے اور خارجہ سیکریٹری 5، 5 بار، قومی سلامتی مشیر نے ایک بار جب کہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے 8 اجلاس افغان دارالحکومت میں ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 225 بار سرحدی فلیگ میٹنگز ہوئیں، 836 احتجاجی مراسلے اور 13 سخت نوٹس (ڈی مارش) دیے گئے۔

2021 سے اب تک 3 ہزار 844 شہادتیں (عام شہری، فوجی، اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار) ہوئی ہیں، 10 ہزار 347 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔

جنگ بندی مذاکرات
جمعہ کی رات ہونے والے تازہ حملوں نے جنگ بندی پر سائے ڈال دیے، جس میں چند گھنٹے پہلے ہی توسیع کی گئی تھی، ساتھ ہی دوحہ مذاکرات کے امکانات پر بھی سوال اٹھا دیے۔

ایک سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغانستان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام تک جنگ بندی کو باہمی طور پر بڑھا دیا ہے، مذاکرات (ہفتہ) کو شروع ہونے کے لیے تیار ہیں۔

دو روزہ جنگ بندی زیادہ تر بغیر کسی خلاف ورزی کے برقرار رہی، لیکن اس دوران کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہو سکے، جن کا مقصد ایک پیچیدہ مگر قابلِ حل مسئلے کو سلجھانا تھا، جیسا کہ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بیان کیا تھا۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقات علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ افغانستان عالمی دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری کو غفلت برتنے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں کسی بڑے عالمی سانحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، یہ آگ پھیل رہی ہے، اسے ابھی روکنا ہوگا۔

پہلے مرحلے میں کسی دو طرفہ مذاکراتی پیش رفت کا آغاز نہیں ہو سکا، تاہم قطر نے پیشکش کی کہ مذاکرات دوحہ میں ہوں، ذرائع کے مطابق مذاکرات جمعرات یا جمعہ کے لیے طے تھے مگر لاجسٹک وجوہات اور طالبان قیادت کی ہچکچاہٹ کے باعث ایک دن کے لیے مؤخر کر دیے گئے۔
افغانستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق طالبان کا وفد وزیرِ دفاع ملا یعقوب مجاہد اور انٹیلیجنس چیف ملا واسع پر مشتمل ہوگا۔پاکستان کے دفترِ خارجہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی، لیکن نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کی شام کے وقت ملاقات سے یہ عندیہ ملا کہ جنرل ملک ممکنہ طور پر دوحہ جائیں گے۔

لاشوں کی واپسی
جمعہ کے روز افغان حکام نے چمن سیکٹر میں ہونے والے طالبان حملے میں شہید ہونے والے 7 پاکستانی شہریوں (جن میں 2 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے) کی لاشیں پاکستانی حکام کے حوالے کر دیں۔

طالبان حکام نے تمام 7 لاشیں ہلالِ احمر پاکستان کے ذریعے حوالے کیں، تنظیم کے بلوچستان چیپٹر کے عبدالولی خان غبیزئی نے تصدیق کی اور انہوں نے بتایا کہ طالبان حکام نے ویژ منڈی بارڈر پوسٹ پر اعلان کیا کہ وہ ان پاکستانیوں کی لاشیں واپس کر رہے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان مسلح جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

لاشوں کو ضلعی ہسپتال چمن منتقل کیا گیا، جہاں شناخت اور قانونی کارروائی کی گئی۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد اویس کے مطابق 5 لاشیں ضلعی ہسپتال چمن لائی گئیں، ان میں سے 4 کی شناخت بارڈر ٹاؤن کے رہائشیوں کے طور پر ہو چکی ہے، جب کہ پانچویں لاش کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔

2 شہدا کی شناخت نائیک سلیمان اور سپاہی صابر کے طور پر ہوئی، جن کی لاشیں بعد ازاں سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کر دی گئیں۔

حکام کے مطابق 5 عام شہریوں میں سے 4 مارٹر گولے کے چھروں سے جب کہ ایک سر پر گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے۔

مقتولین میں سید علی ادوزئی، محمد اصغر اشیازئی، روزی خان صالح زئی، اور نصیب اللہ صالح زئی مزدور پیشہ افراد تھے، جنہیں جمعہ کی شام ان کے آبائی گاؤں میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

چمن کے مقامی باشندوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل طالبان کے اسپن بولدک حملوں میں کم از کم 12 پاکستانی شہری مارے جا چکے ہیں۔

فوجی اہلکاروں کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی کی خبروں پر دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ اس طرح کی درندگی اور وحشیانہ حرکت کی شدید مذمت کی جانی چاہیے یہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے، جس نے پاکستانی عوام کو گہرے دکھ اور صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ ایسا معاملہ نہیں جو آسانی سے بھلایا یا معاف کیا جا سکے۔