امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے ماہرین نے ایک نیا ماحول دوست کنکریٹ ”ڈائمانٹی“ (Diamanti) تیار کیا ہے، جو عام کنکریٹ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے اور ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں تعمیرات کے انداز کو بدل سکتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ’کنکریٹ‘ کے بغیر آج کی دنیا کا تصور ممکن نہیں۔ گھر ہو، پل ہو یا بلند و بالا عمارت، ہر جگہ یہی مضبوط مٹیریل استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ کنکریٹ دنیا بھر کے کاربن اخراج کا تقریباً 8 فیصد ذمہ دار بھی ہے، یعنی جتنا یہ تعمیرات میں مددگار ہے، اتنا ہی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی۔
یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے سائنس دانوں نے ایک نیا راستہ نکالا ہے، ایک ایسا کنکریٹ جو ماحول دوست بھی ہے اور طاقت میں بھی پیچھے نہیں۔
یہ منصوبہ ”ڈائمانٹی“ کہلاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن فطرت کے نمونوں، خصوصاً ہڈیوں کی اندرونی ساخت سے رہنمائی لے کر تیار کیا گیا ہے۔جس طرح ہماری ہڈیوں کے اندر جگہ جگہ خالی پورز ہوتے ہیں مگر وہ پھر بھی مضبوط رہتی ہیں، اسی طرح ڈائمانٹی میں بھی کنکریٹ کو جال دار انداز میں ڈھالا گیا ہے تاکہ کم مواد میں زیادہ مضبوطی حاصل کی جا سکے۔
ڈائمانٹی کا پہلا منصوبہ ایک ’پیدل چلنے والا پُل‘ ہے۔ اس میں 60 فیصد کم کنکریٹ استعمال کیا گیا، لیکن طاقت روایتی پلوں کے برابر ہے۔ یہ کارنامہ تھری ڈی (3D) روبوٹک پرنٹنگ کے ذریعے ممکن ہوا، جو کنکریٹ کو انتہائی درست انداز میں پرنٹ کرتی ہے۔
یہ نیا کنکریٹ نہ صرف کم مواد میں بنتا ہے بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب بھی کرتا ہے۔ عام کنکریٹ اپنے بننے کے دوران پیدا ہونے والے کاربن کا صرف 30 فیصد واپس جذب کر پاتا ہے، جبکہ ڈائمانٹی کا مرکب 142 فیصد زیادہ کاربن جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس میں استعمال ہونے والا ایک خاص قدرتی مادہ، ڈایٹومی اَرتھ (Diatomaceous Earth)، ایلجی کے فوسلز سے بنا ہوتا ہے اور اس کی ساخت میں باریک سوراخ موجود ہوتے ہیں۔ یہ سوراخ کنکریٹ کے اندر تک کاربن داخل ہونے دیتے ہیں، جس سے ماحول پر بوجھ کم ہوتا ہے۔
ڈائمانٹی کے ڈیزائن میں ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اسٹیل پر بھی انحصار کم کرتا ہے، تقریباً 80 فیصد تک۔ یوں تعمیر کے اخراجات میں 25 سے 30 فیصد کمی آتی ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی نمایاں طور پر گھٹتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ نظام تعمیر کے مستقبل کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔
یورپ میں پہلا تجرباتی پُل
ڈائمانٹی ٹیم نے پہلے پانچ میٹر لمبا نمونہ تیار کیا، پھر دس میٹر لمبا تجرباتی پُل بنایا جو تمام ٹیسٹوں میں کامیاب رہا۔ اب یہ پروجیکٹ فرانس میں دریائے سین (Seine) پر اپنا پہلا حقیقی پُل بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ تجرباتی پُل اس وقت وینس (اِٹلی) کے یورپی ثقافتی مرکز میں وینس آرکیٹیکچر بینالے 2025 کی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اکبرزادہ اور ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق رواں سال ”ایڈوانسڈ فنکشنل میٹیریلز“ نامی معروف سائنسی جریدے میں شائع کی۔
پروفیسر مسعود اکبرزادہ کہتے ہیں، ”یہ ماڈل ہماری تمام توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا۔“
مستقبل کی ایک جھلک
ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈائمانٹی جیسی اختراعات صرف پلوں تک محدود نہیں رہیں گی۔ یہ ٹیکنالوجی فرش، دیواروں، یا تیار شدہ تعمیراتی حصوں میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی جادوئی حل نہیں، لیکن ایک نیا آغاز ضرور ہے، ایک ایسا آغاز جہاں تعمیرات اور ماحول ساتھ ساتھ چل سکیں۔