بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

26 ویں آئینی ترمیم؛ چیف جسٹس حکم دینگے تو ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری پہن لیں گے، جسٹس جمال کے ریمارکس

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس جب آرڈر کریں گے ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہن لیں گے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

یاد رہے کہ کیس کی گزشتہ سماعت پر 6 سابق صدور سپریم کورٹ بارز کے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔

درخواست گزار اکرم شیخ نے آج اپنے دلائل کا آغاز کردیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی طرف سے تو لطیف کھوسہ صاحب نے درخواست دائر کردی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں لطیف کھوسہ صاحب میرے وکیل نہیں ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے لطیف کھوسہ نے آپ کی اجازت کے بغیر درخواست دائر کردی؟۔ اکرم شیخ نے دلائل کے آغاز پر شعر پڑھ کر سنایا۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں۔ ہم سب قوم کو جواب دہ ہیں۔ ہم آئین کے ماتحت ہیں اور ان کی گائیڈنس چاہیے۔ اس موقع پر اکرم شیخ نے عدالت میں دعا کرنے پر اصرار کیا اور اجازت ملنے پر علامہ اقبال کا شعر پڑھ رک سنایا۔

وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ مجھے ایک ڈیڑھ گھنٹہ دے دیں ۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر پندرہ بیس منٹ میں آئینی بات کریں تو آسان ہو جائے گا ۔ ایک صاحب نے تو یہاں کہا ہے کہ آئین کو ایک سائڈ پر رکھ دیں ۔ یہاں پر دو معروضات پیش کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ 24 یا 16 کس پر متفق ہیں؟ جس پر وکیلن ے کہا کہ 24 ججز کی حمایت۔

اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے اور بعد والے تمام ججز کو فل کورٹ کا حصہ بنایا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز بیٹھ جائیں، مگر اسے آئینی بینچ نہ کہا جائے؟۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کی رائے میں فل کورٹ کیا ہے؟۔ ایک نے کہا تمام ججز فل کورٹ ہیں اور ایک ممبر نے کہا کہ 16 ججز فل کورٹ ہیں ۔

وکیل اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ آئینی بینچ اس کیس کو نہیں سن سکتا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال ہے کہ جو آئینی بینچ میں شامل نہیں ہے وہ کیسے بیٹھ سکتا ہے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ بے شک 24 ججز بیٹھیں مگر ان کو آئینی بینچ نہ کہا جائے ، سپریم کورٹ کہلائے؟

وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے۔ کسی ڈکٹیٹر نے بھی آئین میں اتنا ڈینٹ نہیں ڈالا جتنا 26ویں ترمیم نے ڈالا ہے۔ وکیل نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کے لیے پہلے ہمیں بینچ کا فیصلہ تو کرنے دیں۔

اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے اوپر یزید کی ا بیعت لازم نہیں ہے۔ میں نہیں کہوں گا کہ یزید کو سلام۔ فل کورٹ میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ فل کورٹ کا ہے ۔ 8 ججز اس کیس کو نہیں سن سکتے ۔ جسٹس امین نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے 15 منٹ سے آپ آئین پر بات نہیں کررہے تو وکیل نے جواب دیا کہ میں آئین ہی پر بات کررہا ہوں ۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ 8 رکنی بینچ مفادات کا ٹکراؤ کی وجہ کیس نہیں سن سکتا۔ ساتھ ہی آپ کہہ رہے کہ 24 کے 24 ججز بیٹھ کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سنیں۔ جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ پرنسپل ہے کہ ایک لارجر بینچ کا فیصلہ ایک چھوٹا بینچ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ نیا ہے، آئینی بینچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ آئینی بینچ 26ویں ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا۔ دوسری جانب آپ کہتے ہیں 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے۔ کیا 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ تو طے ہے کہ چھوٹا بینچ بڑے بینچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا۔ وکیل نے کہا کہ سر آپ نے احسان کیا ایک سال بعد کیس سننے کا ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ سارے ججز کو آئینی بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ میں نے آپ کا ریفرنس خود پڑھا جس میں آپ نے سارے ججز کو آئینی بینچ کا حصہ بننے کا کہا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے حوالے سے ویسے بھی مشہور ہے کہ زیادہ سوالات کرتا ہوں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سر مجھے اللہ نے خوشامدی کی بیماری سے بچایا ہوا ہے۔ وکیل نے کہا کہ مجھے جسٹس امین الدین صاحب نے راستہ دکھانے کا کہا۔ وکیل کتابیں پڑھتے ہیں ابھی تو میں نے کتابیں پڑھی ہی نہیں۔ اس موقع پر بینچ نے وکیل اکرم شیخ کو کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شیخ صاحب یہ بات تو واضح ہے کہ چھوٹا بینچ بڑے بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں ،کیا ان کے پاس پاور ہوگی ؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا پھر اس فیصلے کو ماننا پڑے گا ۔ آپ نے تمام ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کا کہا تھا ۔

وکیل اکرم شیخ نے جسٹس محمد علی مظہر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ایک کمرشل کیس لگا، آپ نے دو سال بعد فیصلہ دیا مگر انگلینڈ سے ایک کتاب لایا آپ نے اس کا ریفرنس نہیں دیا کہ وہ کتاب میں لایا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بار آپ جو بھی ریفرنس دیں گے، ججمنٹ میں آپ کا نام لکھیں گے۔

وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ الیکشن کی اسکروٹنی ہوجائے گی۔ پھر ایک کمیشن بن گیا، ا سکروٹنی اور احتساب کو روکنے کے لیے۔ اسی کے نتیجے میں یہ آئینی ترمیم آگئی۔ اتنی سی تو داستان ہے، پس منظر انتہائی اہم ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ دنیا جہان کی باتیں کیں، مگر آئینی بینچ پر بات نہیں کرنی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آئینی بینچ کیس نہیں سن سکتا تو چیف جسٹس کے پاس جائیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے پاس دو رُول ہیں، آئینی بینچ اور سپریم کورٹ کے ممبر بھی۔ جب چیف جسٹس آرڈر کریں گے ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہن لیں گے۔

جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہہ دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے یہ 8 رکنی بینچ کیس نہیں سکتا۔ آپ کے خیال میں وہ کونسا بینچ ہونا چاہیے جو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کو سن سکتا ہے؟ ، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سپریم کورٹ آف پاکستان سنے، کوئی آئینی بینچ نہیں۔

وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کے قابل عزت ججز ہیں، آئینی بینچ کے نہیں۔ میں نے کوئی پوزیشن لی نہیں کہ کون سے ججز بینچ میں بیٹھے اور کون نہیں۔ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ سارے ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے۔ اس موقع پر عدالت نے وکیل اکرم شیخ کو آرٹیکل 191 پڑھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ دلائل بعد میں پیش کریں، پہلے تو ہم نے بینچ کا فیصلہ کرنا ہے ۔ آپ کہتے ہیں یہ بینچ نہیں سن سکتا، چلیں فرض کریں ہم نے آپ کی بات مان لی۔ ہم یہاں سے اُٹھ جائیں گے، فل کورٹ میں جا کر بیٹھ جائیں گے۔ فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، یہ بتا دیں، فل کورٹ کون بنائے گا؟ ۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک آپ یہ ثابت نہیں کریں گے کہ یہ بینچ اس مقدمے کو سننے کا اہل نہیں تب تک ہم آپ کی درخواست نہیں مان سکتے۔

وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ آئینی ترمیم کا تنازع سپریم کورٹ طے کر سکتی ہے کوئی آئینی بینچ نہیں۔ سپریم کورٹ کا 15 رکنی بینچ بھی ترمیم کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا کہ رہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز آئندہ ہفتے سے سماعت کا آغاز کریں۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا عدالت باقی ججز کو بینچ میں شامل کرنے کے لیے حکم دے سکتی ہے؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کیا آرٹیکل 191 اے میں کوئی پابندی ہے کہ کیس سپریم کورٹ نہیں سن سکتی؟ کیا اس وقت آپ تمام ججز سپریم کورٹ کا حصہ نہیں ہیں؟ ۔ یہ تو اللہ کا حکم ہے کہ پہلے اورآخر میں ایمان لانے والے برابر نہیں ہوسکتے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ فل کورٹ بنائی کیسے جائے عدالت کیا حکم دے؟ ، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت ماضی میں کئی کیسز آئینی بینچ سے دوسرے بینچز جو بھیج چکی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں ہم آرڈر کریں کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ سنے؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل میری رائے میں فل کورٹ بیٹھ کر مقدمہ سنے۔ تمام ججز بیٹھیں جس کے ضمیر پر بوجھ ہو وہ اٹھ جائے گا یا اس پر اعتراض بھی ہوسکتا ہے۔ اصولی طور پر منیر اے ملک کے دلائل سے متفق ہوں۔ معاملہ حل کرنے کے لیے 24 رکنی فل کورٹ کی تجویز دے رہا ہوں۔ ہم نے بہت بھگت لیا، اب عدلیہ کو قائد کے ویژن کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قائداعظم تو پارلیمنٹ کے بھی بانی ہیں اور پارلیمان کہتی ہے انہیں فالو کر رہی ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ کیا پارلیمان آئین کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑ سکتی ہے یا ایک ادارے کو مفلوج کر سکتی ہے؟

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ اس سوال کو فل کورٹ میں بیٹھ کر دیکھیں گے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ نے دلائل کا آغاز شاعرانہ انداز میں کیا تھا۔ آپ کے دلائل سے لگتا ہے انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ آپ نے فل کورٹ بنانے کا طریقہ نہیں بتایا۔ وکیل نے بتایا کہ کیس آئینی بینچ سے واپس سپریم کورٹ کو بھیج دیں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ غالب کے شعر سے دلائل کا اختتام کروں گا۔ غلط ہے جذب دل کا شکوہ، دیکھو جرم کس کا ہے۔ نا کھینچو گرد اپنے کو درمیان کشمکش کیوں ہو؟

وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے۔ وہ سپریم کورٹ جو آرٹیکل 176 اور 191 اے کو ملا کر بنے ۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے دو متفرق درخواستیں فائل کی ہیں؟ ہمارے پاس آپ کی صرف ایک متفرق درخواست ہے۔ دلائل شروع کرنے سے پہلے بتا دیں یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کیسے پاس کرسکتا ہے؟

وکیل شبر رضا نے جواب دیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کے تحت بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی آپ سپریم کورٹ ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کی طرح یہ بینچ بھی معاملہ چیف جسٹس یا کمیٹی کو ریفر کرسکتا ہے۔ اس مقدمے کو فل کورٹ سنے ۔ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔