امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سابق مشیرجیرڈ کشنر نے غزہ میں تباہی کا منظر دیکھ کر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غزہ میں جو کچھ میں نے دیکھا، وہ کسی ایٹمی حملے سے کم نہیں تھا۔
امریکی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے غزہ کی موجودہ حالت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ساتھ جنگ بندی کے بعد غزہ پہنچے، تو جو مناظر ان کے سامنے آئے، وہ انتہائی دل دہلا دینے والے تھے۔انہیںلگ رہا تھا جیسے اس علاقے پر ایٹم بم گرایا گیا ہو۔ ہر طرف صرف ملبہ، ٹوٹے ہوئے خواب اور بکھرے ہوئے گھر نظر آ رہے تھے۔ لوگ اپنے گھروں کی جگہ اب ملبے پر خیمے لگا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب ملا کہ ’’یہ اپنی زمینوں پر واپس آ رہے ہیں، وہاں جہاں کبھی ان کے گھر ہوا کرتے تھے۔ان کے پاس اور کوئی جگہ نہیں بچی‘‘
کشنر نے کہا کہ’’یہ منظر دل توڑ دینے والا تھا۔ ان لوگوں کے پاس واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا، صرف ملبہ اور ادھورے خواب۔‘‘
تاہم، اس شدید انسانی بحران اور تباہی کے باوجود، جیرڈ کشنر اور اسٹیو وٹکوف دونوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی کو “نسل کشی” کہا جا سکتا ہے۔
یہ نسل کشی نہیں، اسٹیو وٹکوف کا مؤقف
اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ وہ غزہ کی صورتحال کو نسل کشی تصور نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کی قیادت نہایت مشکل حالات میں کی۔
واضح رہے کہ11 اکتوبر کو جیرڈ کشنر اور اسٹیو وٹکوف نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ بریڈ کوپر کے ہمراہ غزہ کا دورہ کیا تھا، جہاں انہیں اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر کی جانب سے صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا غزہ میں انسانی بحران پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ جیرڈ کشنر جیسے اہم عالمی شخصیات کا غزہ کی تباہی کو “ایٹم بم جیسے اثرات” سے تشبیہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے—جس کے اثرات برسوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔
غزہ کی تباہی ایٹم بم جیسی لگتی ہے، جیرڈ کشنر کا دل دہلا دینے والا بیان
