سندھ کے کچے کے علاقوں میں جرائم کے خلاف ایک بڑی کامیابی سامنے آئی ہے جہاں 72 خطرناک ڈاکوؤں نے سندھ حکومت کی سرینڈر پالیسی 2025 کے تحت ہتھیار ڈال دیے اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس لائن شکارپور میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں یہ سرنڈر عمل میں آیا جہاں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکو پیش ہوئے اور اپنے جدید اسلحے کو قانون کے حوالے کیا۔
اس تقریب میں جمع کیے گئے اسلحے میں کلاشنکوف، راکٹ لانچر، اینٹی ایئرکرافٹ گنز اور دیگر بھاری ہتھیار شامل تھے۔ ان ڈاکوؤں کے سروں کی مجموعی قیمت 6 کروڑ روپے سے زائد تھی، جس سے ان کے خطرناک ماضی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں کئی بدنام ڈاکو شامل تھے جیسے نثار سبزوئی، جس پر 82 مقدمات درج تھے اور اس کے سر کی قیمت 30 لاکھ روپے تھی، جبکہ لادو تیغانی کے خلاف 93 ایف آئی آرز درج تھیں اور اس کے سر کی قیمت 20 لاکھ رکھی گئی تھی۔ اسی طرح سوکھیو تیغانی، سونارو تیغانی، جمعو تیغانی، ملن عرف واجو، گلزار بھورو، نور دین تیغانی اور نمو تیغانی جیسے خطرناک ملزمان بھی شامل تھے۔
وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے واضح پالیسی دی ہے کہ ڈاکو ہتھیار ڈال کر پرامن زندگی گزارنا چاہیں تو انہیں موقع دیا جائے گا، لیکن ہتھیار ڈالنے کے باوجود ان سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور وہ عدالتی عمل سے ضرور گزریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کسی قسم کی ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کی اجازت نہیں ہوگی اور جو بھی ہتھیار ڈالے گا، اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس، رینجرز اور مقامی برادریوں کے تعاون سے یہ کامیابی ممکن ہوئی، اور اب کچے کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے حکومت مزید اقدامات کر رہی ہے۔ سرینڈر کرنے والوں کو اچھے شہری بننے، نوکریاں فراہم کرنے، بچوں کو تعلیم دلوانے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
آئی جی سندھ نے اس موقع پر کہا کہ اگرچہ بہت سے علاقوں میں امن بحال ہو چکا ہے، لیکن کچھ حساس علاقے جیسے گھوٹکی کا کچہ ابھی کلیئر نہیں ہو سکا۔ انہوں نے 2012 سے جاری ہنی ٹریپ جیسی مجرمانہ سرگرمیوں کی بھی نشاندہی کی جن پر قابو پانے کے لیے مربوط اقدامات جاری ہیں۔
یہ پیش رفت سندھ میں نہ صرف جرائم کی بیخ کنی کی جانب ایک اہم قدم ہے بلکہ ایسے افراد کو پرامن معاشرتی زندگی کا حصہ بنانے کی ایک مثبت اور قابل تقلید مثال بھی ہے۔