بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

لاہور میں تصوف کا نیا مرکز،روحانیت، سکون اور علم کا حسین امتزاج

منہاج یونیورسٹی لاہور میں قائم پاکستان کا پہلا تصوف سینٹر صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تجربہ گاہ ہے، جو تین سال کی محنت کے بعد مکمل ہوا ہے۔ یہ جگہ جدید دور کے ذہنی دباؤ اور مادی دوڑ میں الجھے ہوئے انسان کو اندرونی سکون اور خود شناسی کی روشنی دکھانے کا پیغام دیتی ہے۔
یہ سینٹر کسی خاص صوفی سلسلے سے منسلک نہیں بلکہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی، شاذلی، رفائی اور دیگر متعدد سلسلوں کی تعلیمات کو یکجا کرتا ہے۔ اس کی عمارت پاکستان، ایران اور ترکی کی اسلامی فنِ تعمیر کا خوبصورت امتزاج ہے، جس میں گنبد، محرابیں، نیلی ٹائلوں کے نقوش اور خطاطی کی جھروکیاں روحانیت کی تصویری زبان بن جاتی ہیں۔
جب آپ اس سینٹر کے دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو ایک منفرد اور پرسکون فضا محسوس ہوتی ہے۔ مراقبہ ہال میں ہلکی روشنی، ہوا میں بانسری کی میٹھی دھن اور عود کی خوشبو آپ کے دل و دماغ کو سکون بخشتی ہے۔ یہاں بیٹھ کر چاہے طالب علم ہو یا زائر، ایک اندرونی خاموشی آپ سے بات کرنے لگتی ہے — ڈاکٹر خرم شہزاد اس کیفیت کو ’’باطنی یکسوئی‘‘ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر خرم شہزاد، جو اس سینٹر کے ڈائریکٹر اور منہاج یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی ہیں، کہتے ہیں کہ آج کا انسان معاشی، سماجی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ مغرب نے ذہنی سکون کے لیے میڈیٹیشن اور مائنڈ فل نیس جیسے طریقے متعارف کرائے، لیکن اسلام نے ہزاروں سال پہلے مراقبہ، محاسبہ نفس اور ذکر الہی کے ذریعے یہی راستہ دکھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سینٹر کا مقصد تصوف کو صرف رسم و رواج تک محدود نہ رکھنا بلکہ اسے ایک علمی اور عملی طرزِ زندگی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان اپنے اندر سکون پاتا ہے تو اس کے رویے نرم و ملائم ہو جاتے ہیں، جو معاشرے میں برداشت اور محبت کو فروغ دیتا ہے۔
ڈاکٹر خرم شہزاد نے اس بات پر زور دیا کہ آج کل کچھ لوگ پیر مریدی کے نام پر ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو قرآن و سنت اور صوفیا کی تعلیمات کے خلاف ہیں، اور ایسے لوگ پیر نہیں ہو سکتے۔
تصوف سینٹر میں مختلف کورسز بھی چلائے جاتے ہیں جن میں ایک وقت میں تقریباً سو افراد شرکت کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے علیحدہ اوقات بھی رکھے گئے ہیں تاکہ وہ بھی بھرپور انداز میں روحانی تعلیم حاصل کر سکیں۔
مرکز کے کوآرڈینیٹر علی سعد قادری بتاتے ہیں کہ یہاں طلبہ کو وہی ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو قدیم صوفیائے کرام کی خانقاہوں میں ہوتا تھا۔ ہر سلسلے کے طلبہ نہ صرف اپنے مخصوص سلسلے کا علم حاصل کرتے ہیں بلکہ دوسرے سلسلوں کی تعلیمات سے بھی روشناس ہوتے ہیں تاکہ تصوف کا ایک جامع تصور سامنے آئے۔
سینٹر کی لائبریری بھی اپنی نوعیت میں خاص ہے، جہاں صرف مسلم صوفیاء کی کتابیں نہیں بلکہ مسیحیت، ہندومت، سکھ مت اور دیگر مذاہب کی روحانی تعلیمات پر لکھی نادر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ اس کا مقصد مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں فکری احترام اور روحانی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
نصاب میں عرب، ایرانی اور برصغیر کے صوفیاء کی تصانیف شامل ہیں، جیسے رومی کی مثنوی، داتا گنج بخشؒ کی کشف المحجوب، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ اور امام غزالیؒ کی احیاء العلوم۔
ڈاکٹر خرم شہزاد علامہ اقبال کے الفاظ یاد دلاتے ہیں: “تصوف کا مطلب گوشہ نشینی نہیں بلکہ خدمت خلق ہے۔” یعنی خانقاہوں سے نکل کر اپنی فیلڈ میں بہترین کارکردگی دکھانا اور قوم کی خدمت کرنا اصلی تصوف ہے۔
یوں منہاج یونیورسٹی کا تصوف سینٹر ایک عمارت سے بڑھ کر ایک دعوتِ فکر بن گیا ہے — وہ جگہ جہاں روحانیت، عقل، علم اور احساس ایک ساتھ مل کر ایک نئی روشنی پیدا کرتے ہیں۔ جہاں بانسری کی مدھم دھن، عود کی خوشبو اور دل کی دھڑکنیں ایک ہی پیغام دیتی ہیں: جب انسان اپنے اندر کے اسرار کو پہچان لیتا ہے تو پوری کائنات اُس کے لیے روشن ہو جاتی ہے۔