حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے 2 ارب ڈالر کا فنانسنگ پیکج حاصل کر لیا ہے تاکہ کراچی۔پشاور مرکزی ریلوے لائن (ایم ایل-ون) کے کراچی تا روہڑی حصے پر آئندہ سال کے اوائل میں کام کا آغاز کیا جا سکے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کو دسمبر 2028 سے قبل مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے تاکہ اربوں ڈالر مالیت کے ریکو ڈک کاپر اور گولڈ پروجیکٹ سے منسلک نقل و حمل کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
وزیرِ مملکت برائے خزانہ و ریلوے، بلال اظہر کیانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 10 ارب ڈالر مالیت کے ایم ایل-ون توسیعی منصوبے کے 2 اہم حصے 2028 کے اختتام تک مکمل ہو جائیں گے، کراچی۔روہڑی سیکشن پر 2 ارب ڈالر کے اے ڈی بی پیکج کے تحت پیش رفت ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روہڑی۔نوکنڈی سیکشن پر ریکو ڈک مائننگ کمپنی کے ساتھ بات چیت جاری ہے، دونوں منصوبے ریکو ڈک میں پیداوار کے آغاز سے پہلے مکمل کر لیے جائیں گے۔
وزیر مملکت نے جاری نجکاری کے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی فروخت کا عمل آئندہ ماہ آگے بڑھنے کی توقع ہے، جب کہ فرسٹ ویمن بینک کی کامیاب نجکاری مکمل ہو چکی ہے۔
برآمدات میں اضافے کے حوالے سے بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ حال ہی میں نجی شعبے کے کاروباری رہنماؤں کی سربراہی میں قائم کردہ ورکنگ گروپس کو آئی ایم ایف پروگرام کے دائرہ کار میں پالیسی سفارشات تیار کرنے کا کام سونپا گیا ہے، یہ گروپس اپنی تجاویز اور اہداف 15 نومبر تک وزیرِاعظم شہباز شریف کو پیش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ورکنگ گروپس آمدنی ٹیکس، کسٹمز، اینٹی ڈمپنگ، ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ، توانائی، ریلوے، بندرگاہیں، صنعتی ترقی، زراعت، آئی ٹی اور صنعتی کاری جیسے کلیدی شعبوں پر مشتمل ہیں، جن میں متعلقہ وزارتوں کے افسران تکنیکی مشیروں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
وزیر نے کہا کہ حکومت نجی شعبے کی عملی تجاویز کو پالیسیوں میں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہے، تاکہ توانائی کی لاگت میں کمی، ٹیکس اصلاحات، برآمدات کے فروغ اور پائیدار ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کو زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ بنانے اور آئی ٹی برآمدات کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
وزیر مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ نجی شعبے سے مسلسل مشاورت کا عمل ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکا ہے، کیوں کہ حکومت کا یقین ہے کہ پائیدار معاشی ترقی عوامی و نجی شعبے کی مشترکہ کاوشوں سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ مہنگائی پر قابو پانے، روزگار بڑھانے، برآمدات میں توسیع اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں چیلنجز اب بھی موجود ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت کے گزشتہ 18 ماہ کے دوران نمایاں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِاعظم کا کاروباری رہنماؤں کے ساتھ حالیہ 3 گھنٹے طویل اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت قومی اقتصادی پالیسیوں میں نجی شعبے کے نقطۂ نظر کو شامل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔









