بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

تمام ہائیکورٹ ججز مشترکہ سنیارٹی لسٹ، تعین تاریخ تقرری کی بنیاد پر

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بڑے عدالتی اصلاحات متعارف کروا رہی ہے، جن میں تمام ہائی کورٹ ججوں کی مشترکہ سینیارٹی فہرست کی تیاری اور سپریم جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دینا شامل ہے کہ وہ کسی جج کی رضامندی کے بغیر ہائی کورٹس یا ان کے علاقائی بنچز کے درمیان ججوں کے تبادلے کر سکے۔

ذرائع کے مطابق، اس اقدام کا مقصد عدالتی تبادلوں اور تقرریوں سے متعلق پرانے تنازعات طے کرنا ہے۔ یہ تنازعات حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے اور تقرریوں، خصوصاً موجودہ چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی تعیناتی کے معاملے میں سامنے آئے تھے، جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، مجوزہ ترامیم کے تحت ملک کی تمام ہائی کورٹس کے ججوں کی سینیارٹی اُن کی تقرری کی تاریخ کی بنیاد پر طے کی جائے گی، جس سے تمام ہائی کورٹس کیلئے سینیارٹی کا یکساں ڈھانچہ قائم ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ بہتر عدالتی انتظام کے مفاد میں ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکے، اس کیلئے متعلقہ جج کی رضامندی درکار نہیں ہوگی۔

اہم سرکاری ذرائع کے مطابق، یہ ترامیم حال ہی میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں تجویز کی گئی ہیں جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں کو درست قرار دیا گیا اور اس معاملے میں صدرِ مملکت اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے آئینی اختیارات کی توثیق کی گئی۔

سپریم کورٹ نے اس سے قبل فروری 2025ء کے اُس نوٹیفکیشن کیخلاف دائر درخواستیں مسترد کردی تھیں جس کے ذریعے صوبائی ہائی کورٹس کے ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز اور کچھ بار ایسوسی ایشنز شامل تھیں جن کا موقف تھا کہ ایسے تبادلے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سینیارٹی کے اصولوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

تاہم، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا تبادلہ نئی تقرری نہیں۔ فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ ’’تبادلہ دراصل موجودہ وسائل کی ازسرِنو تقسیم ہے‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس بات کی تصدیق کی کہ تمام آئینی تقاضے پورے کیے گئے جن میں چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت بھی شامل ہے۔

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ صدرِ مملکت کو آئینی طور پر ایسے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010ء میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں۔ عدالت نے صوبائی نمائندگی کی خلاف ورزی کے تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبادلے مکمل طور پر آئینی ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، حکومت کا خیال ہے کہ یہ نئی آئینی اصلاحات ججوں کے درمیان اختلافات، تقسیم اور اندرونی سیاست میں کمی لائیں گی کیونکہ تقرری اور تبادلے کیلئے واضح طریقہ کار ادارہ جاتی سطح پر طے ہو جائے گا۔

دوسری جانب، اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کی تیسری منزل خالی کی جارہی ہے اور وہاں موجود ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پرانی عمارت میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ اسی جگہ وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کیا جا سکے۔ جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کی موجودہ عمارت وفاقی آئینی عدالت کیلئے مختص کی جائے گی جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے جارہی ہے۔
انصار عباسی