اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکہ بھارت دس سالہ دفاعی معاہدے کی خبر جہاں پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کے لئے مخصوص پس منظر میں الارمنگ ہے، وہیں اس نے بہت سے سوالات اور خدشات کو جنم دیا ہے۔ان سوالات کے جوابات اور اس معاہدے کے پاکستان’ چین اور خطے پر اثرات تو وقت کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے اور اس پر عمل درآمد کے بعد واضح ہوں گے۔لیکن اس وقت پاکستانیوں کے ذہن میں ایک تاثر عام ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مخصوص مائنڈ سیٹ اور مزاج کے مطابق انڈیا کے ساتھ یہ معاہدہ کرکے پاکستان کے ساتھ ’ہاتھ کر دیا ہے‘۔
ہماری قیادت کو زبانی تعریفیں کر کے اور انڈیا کے 7 طیارے گرنے کا بار بار تذکرہ کرکے خوش کئے رکھا اور بھارت کو بظاہر دباؤ میں رکھنے کا تاثر دیتے ہوئے اچانک پاکستان کو سرپرائز دیتے ہوئے امریکہ انڈیا دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے کا اعلان کر کے پاکستان اور چین کیلئے خطرہ کی گھنٹی بجادی ہے۔اگرچہ یہ معاہدہ 2005 اور 2015 میں ہونے والے معاہدوں کی سیریز کا حصہ ہے جس کو جولائی اگست 2025 میں ہونا تھا لیکن پاک بھارت جنگ اور انڈیا کے روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو گئی۔
اس معاہدے کا ہونا بہر حال اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کیلئے اس خطے میں انڈیا کی ا سٹریٹجک اہمیت برقرار ہے۔
ہم اس معاہدے کو گزشتہ ایک سال کی پیش رفت کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو سامنے آتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے تھے۔جبکہ اس کے برعکس اس بار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس دور حکومت کا آغاز امریکہ کو مطلوبہ دہشت گرد حوالے کرنے پر کانگریس میں پاکستان کی تعریف سے کیا اور پھر اس حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کر کے ان کی عزت افزائی کی گئی۔ مئی 2025 میں چار روزہ پاک بھارت جنگ کے خاتمے کے بعد تو ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور سات طیاروں کے گرنے کا بار بار ذکر کرکے انڈیا کو embarrassed کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسی طرح انڈیا پر روس سے تیل خریدنے پر پہلے 25 فیصد ٹیرف پھر جرمانے لگا کر ٹیرف 50 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔اس کے علاؤہ امریکہ نے گزشتہ ماہ یک وقتی H-1B ویزہ کیلئے 100 ہزار ڈالر فیس بھی عائد کر دی تھی۔ اس پس منظر میں غیر متوقع طور پر اچانک امریکہ کے وزیرِ جنگ پیٹ ہیگسیتھ نے اعلان کیا کہ امریکہ اور انڈیا کے درمیان 10 سالہ دفاعی تعاون کے فریم ورک پر دستخط کر دئیے گئے ہیں۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے تحریر کیا یہ معاہدہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان دفاعی شراکت میں پیشرفت ہے جو کہ علاقائی سلامتی کا سنگ بنیاد ہے۔انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک تعاون، معلومات کی شیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں شراکت کو بڑھائیں گے۔انکے بقول امریکہ انڈیا کے دفاعی تعلقات کبھی اس سے زیادہ مضبوط نہیں رہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انڈیا امریکی فوجی سامان خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس معاملے پر بات چیت متوقع ہے۔اسی دوران امریکی وزیر جنگ نے جمعے کو انڈیا اور چین کے ہم منصبوں سے ملائیشیا میں جاری آسیان دفاعی اجلاس میں ملاقاتوں کے بعد ایکس پر لکھا کہ امریکہ نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا سختی سے دفاع کرے گا اور بحر ہند اور بحر الکاہل میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھے گا۔ جبکہ انھوں نے متنازع جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان کے ارد گرد چینی سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ جبکہ انڈین وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دفاعی فریم ورک اس بات کا عندیہ ہے کہ دونوں ملک جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں۔ان کے بقول ہمارے باہمی تعلقات کی بڑی بنیاد دفاع رہے گی۔
اس معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں اور دفاعی معاہدے پر تبصرہ کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔کیونکہ اس کے جنوبی ایشیا پر اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ ایک تازہ پیش رفت ہے اور ہم خاص طور پر امن، سلامتی اور جنوبی ایشیا میں استحکام کے حوالے سے اس معاہدے کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے جمعہ کو تصدیق کی تھی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ یہ فریم ورک خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے لکھا کہ اب انڈیا کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق راج ناتھ اور پیٹ ہیگسیتھ کی یہ ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ-پلس کے موقع پر ہوئی تھی۔
معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی-بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے۔ ہمارا اسٹریٹجک اتحاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ و خوشحال بحیرہ ہند خطے کے عزم پر قائم ہے۔جبکہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس شراکت کے ذریعے انڈو پیسیفک خطے کو اصولوں کو تابع رکھا جائے گا۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی قیادت آنے والے دنوں میں کیا امریکہ کو اس معاہدے پر کوئی ردعمل دے گی ؟ اور دے گی تو کو کیا ردعمل دے گی ؟ اور ٹرمپ رجیم سے ذاتی تعریفوں کے علاؤہ اس معاہدے سے پاکستان کیلئے جنم لینے والے متوقع اثرات سے نمٹنے کیلئے کیا ضمانتیں اور دیگر فوائد حاصل کر سکتی ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ فروری میں ٹرمپ اور مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران دفاع بھی بحث کا ایک اہم موضوع رہا تھا۔یہ معاہدہ اسی کی پیش رفت ہے جبکہ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 50 فیصد محصولات عائد کیے جانے کے بعد تناؤ میں کمی کی کوشش ہو رہی ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس معاہدے کے بارے میں لکھا کہ یہ ہماری پہلے سے مضبوط دفاعی شراکت داری میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ دفاع ہمارے دو طرفہ تعلقات کا ایک اہم ستون رہے گا۔ ہماری شراکت داری ایک آزاد، کھلے اور قواعد پر مبنی بحرہند و بحرالکاہل خطے کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ دفاعی فریم ورک ہندوستان-امریکہ دفاعی تعلقات کے تمام پہلوؤں کو پالیسی سمت فراہم کرے گا۔ انھوں نے اس شراکت داری کو دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا آغاز قرار دیا۔
یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے گزشتہ دو معاہدوں کی سیریز میں تازہ ترین ہے اس سے دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان رابطہ بڑھے گا۔ انڈیا کی ٹیکنالوجی تک رسائی ہو گی اور دونوں فوجوں کے لیے دفاعی شعبے میں مل کر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔اس کا مطلب ہے کہ اس سے ان تینوں شعبوں میں مزید امکانات پیدا ہوں گے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ انڈیا کو فوجی سازوسامان کی فروخت میں کئی بلین ڈالر کا اضافہ کرے گا جس سے انڈیا کے لیے ایف-35 سٹیلتھ لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔لیکن اس کے بعد سے انڈیا کی طرف سے سستے روسی تیل کی خریداری اور روس کے ساتھ اس کے دیرینہ دفاعی تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اس معاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ انڈیا سے متعلق کچھ بھی بیان دیتے رہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافہ جاری رہے گا۔کیونکہ امریکہ کی جنوبی ایشیا خارجہ پالیسی میں انڈیا کی ا سٹریٹجک اہمیت برقرار ہے۔
اب یہ سوال اہم ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ کتنا اہم ہے۔اس سلسلے میں ہمیں یہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستانی ٹرمپ کی ٹویٹس یا ان کی سوشل میڈیا سرگرمی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم انڈیا امریکہ تعلقات کا اندازہ لگا رہے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے۔
ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اس طرح کے بیانات کسی ایک واقعے یا شخصیت کی وجہ سے امریکہ کے کسی ریجن میں وسیع تر مفادات پر مبنی ا سٹریٹجک تعلقات اتنی جلدی تبدیل نہیں ہو تے۔اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں جہاں امریکہ کے دو بڑے روایتی معاشی اور فوجی حریف چین اور روس موجود ہیں۔اور یہ واضح ہے کہ امریکہ کے انڈیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کی یہ سیریز چین اور روس specific ہیں۔ اس تناظر میں موجودہ انڈیا امریکہ معاہدہ اور اس سے پہلے جو معاہدے ہو چکے ہیں وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے لیے خاص طور پر دفاعی معاملات میں انڈیا ابھی بھی ماضی کی طرح اہم ہے۔
دریں اثنا جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جنوبی کوریا میں ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اس پس منظر میں بڑی ڈیویلپمنٹ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان ٹیرف کا تنازع حالیہ دنوں میں سرخیوں میں رہا ہے اور ٹرمپ کے ٹیرف کے جواب میں چین نے بھی امریکی اشیا پر ٹیرف بڑھا دیا تھا۔ یہی نہیں چین نے نایاب معدنیات کی برآمد پر بھی سختی کی جس کی پروسیسنگ پر اس کی تقریباً اجارہ داری ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد کہا کہ امریکہ ان تمام چیزوں پر عائد ٹیرف کو کم کرے گا جو پہلے فینٹینائل بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی سپلائی کے بدلے میں عائد کیے گئے تھے۔ ٹرمپ اور شی جن پنگ ملاقات جنوبی ایشیا اور عالمی منظر نامہ میں خوش آئند پیش رفت ہے لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے تعلقات مثبت سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد مستقبل میں چین کے دورے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ انڈیا معاہدہ ،ٹیرف تنازعہ اور روس کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کے باوجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اب بھی جنوبی ایشیا میں انڈیا کو اپنے مفادات کے محافظ کے طور پر دیکھتا ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ٹرمپ کچھ بھی کہیں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھتے رہیں گے۔ یہ معاہدہ انڈیا سے زیادہ خود امریکہ کے لیے اہم ہے کیونکہ بات تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کی ہو یا خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں کو روکنے کی انڈیا جیسے علاقائی اتحادی امریکہ کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ نے اب علاقائی تنازعات میں براہ راست الجھنے کے بجائے علاقائی قوتوں کو استعمال کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ ایک بار پھر پاکستان کی تعریفیں کر کے اسے افغانستان کی طالبان رجیم کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اس معاہدے کے حوالے سے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ بار بار انڈیا کے ساتھ ایک بڑا دفاعی شراکت داری کا معاہدہ کر رہا ہے تاکہ صرف ایک اچھا تاثر دینے والی تصویری خبریں بنائی جا سکیں۔
امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی شراکت داری کی ازسرِنو تصدیق پاکستان کی سول و عسکری قیادت میں یقیناً بے چینی پیدا کرے گی۔ اب پاکستانیوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ علاقائی صورتحال کے تناظر میں امریکہ اور انڈیا کے مابین 10 سالہ دفاعی فریم ورک پاکستان کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے؟ اس حوالے سے جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا پاکستان پر کوئی براہِ راست اثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک فریم ورک معاہدہ ہے جس کے فریقین پابند نہیں ہیں اور یہ وہی سمجھوتہ ہے جس پر دونوں ممالک نے فروری میں ٹرمپ-مودی سربراہی ملاقات کے دوران عمل درآمد پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم مائیکل کوگلمین کے مطابق اس معاہدے کے کچھ نمایاں مگر پاکستان کے لیے زیادہ مثبت نہ ہونے والے جغرافیائی و سیاسی اثرات ضرور ہیں۔ ان کے بقول یہ حقیقت کہ یہ معاہدہ دوطرفہ کشیدگی کے باوجود طے پایا ہے اور یہ امر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دفاعی تعاون جو کہ امریکہ-انڈیا تعلقات کا وہ پہلو ہے ’جو پاکستان کو سب سے زیادہ تشویش میں ڈالتا ہے‘ ابھی بدستور جاری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان کے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں اور سرحدی صورتِ حال بھی غیر مستحکم ہے۔ ایسے میں امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی شراکت داری کی ازسرِنو تصدیق ’چاہے وہ صرف ایک فریم ورک معاہدے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو‘ ، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت میں یقیناً بے چینی پیدا کرے گی۔
دوسری طرف اسی خطے کی ایک طاقت روس کے ساتھ انڈیا کے تعلقات بہت مضبوط ہیں اور روس انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ تاہم اب انڈیا کی دفاعی خریداری میں اس کا حصہ مسلسل کم ہو رہا ہے کیونکہ انڈیا تنوع اور ملکی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں انڈیا نے اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے تیل اور دفاعی خریداری بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ انڈیا اور امریکہ اس وقت ایک اہم تجارتی معاہدے پر بات چیت میں مصروف ہیں جس کا مقصد نومبر میں ایک معاہدہ کرنا ہے۔
اس سال اگست میں امریکہ نے انڈین اشیا کی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا اور اسے روس سے تیل خریدنے کی سزا قرار دیا تھا۔ تاہم انڈیا نے اس معاملے پر محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے گھریلو صارفین کے بہترین مفاد میں روس سے تیل خریدتا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے کہا ہے کہ انڈیا بہت جلد روس سے تیل کی خریداری میں نمایاں کمی کرے گا۔لیکن اس پر انڈیا کی طرف سے عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ انڈیا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ پچھلے سال اس نے روس سے 52.7 بلین ڈالر مالیت کا خام تیل خریدا جو انڈیا کی تیل کی کل درآمدات کا 37 فیصد ہے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی معاشی اور سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر یہ تجارتی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور کامیاب ڈپلومیسی کے ذریعے روس سے بھی مطلوبہ مفادات حاصل کرتا رہے گا۔
پاکستان کو بھی ان ڈیویلپمنٹس کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ سے بڑی دفاعی معاشی و تجارتی ڈیل کرنے کیلئے فوری کوشش کرنا ہوگی، اس سے پہلے کے ٹرمپ اپنے مخصوص مزاج کے مطابق پاکستان کے حوالے سے یوٹرن لے لے۔ اور ہاں اس بار پاکستان کو ماضی کی طرح افغانستان میں کسی بھی قیمت پر امریکہ کی جنگ لڑنے سے باز رہنا ہو گا۔ کیونکہ یہ تاریخ کا وہ تلخ سبق ہے جس کے نتائج ہم گزشتہ 40 سالوں سے بھگت رہے ہیں۔









