ایویئن انفلوئنزا وائرس سے پاکستان کی جنگلی حیات کو سنگین خطرات
اسلام آباد (نیوزڈیسک)انتہائی خطرناک ایویئن انفلوئنزا (ایچ پی اے آئی) دنیا بھر میں جنگلی حیات، ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کے لیے ایک سنگین چیلنج بنتا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان میں اس وائرس کے ممکنہ اثرات کے مقابلے کے لیے ادارہ جاتی اور سائنسی صلاحیت کی کمی پر ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے۔
عالمی سطح پر جنگلی جانوروں میں بڑھتی ہوئی اموات کے باوجود پاکستان میں بروقت نگرانی اور تشخیص کا مؤثر نظام موجود نہیں، جس سے ون ہیلتھ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ورلڈ اینیمل ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق انتہائی خطرناک ایویئن انفلوئنزا ایچ فائیو وائرس 2021 کے بعد مختلف براعظموں میں پھیل چکا ہے اور اب یہ پرندوں کے ساتھ ساتھ کئی ممالیہ جانوروں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ 2025 کے دوران یورپ میں جنگلی پرندوں کی ہجرت کے موسم میں وائرس کی سرگرمی غیر معمولی حد تک بڑھی، جہاں 2024 کے مقابلے میں تشخیص کے کیسز چار گنا زیادہ رپورٹ ہوئے۔ جرمنی میں کامن کرین پرندوں کی بیس ہزار سے زائد اموات سامنے آئیں، جبکہ شمالی امریکا اور جنوبی بحرِ اوقیانوس کے علاقوں میں بھی پرندوں اور ممالیہ جانوروں میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔
عالمی ماہرین کے مطابق ان اموات کے نتیجے میں جنگلی حیات کی آبادی میں کمی، افزائش نسل میں رکاوٹ اور ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچ رہا ہے، جبکہ ممالیہ جانوروں میں وائرس کی منتقلی ون ہیلتھ کے لیے اضافی خطرات پیدا کر رہی ہے۔
اس عالمی تناظر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زوالوجی کے سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار علی نے پاکستان کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس نوعیت کے ابھرتے ہوئے جنگلی حیات کی صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں بہت پیچھے ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں جنگلی پرندوں اور ممالیہ جانوروں میں ایچ پی اے آئی کی نگرانی کے لیے کوئی منظم، مربوط اور وسائل سے آراستہ نظام موجود نہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور صوبائی جنگلی حیات و لائیو اسٹاک محکموں کے پاس نہ تو خصوصی تشخیصی لیبارٹریاں ہیں، نہ جینومک سیکوینسنگ کی سہولت اور نہ ہی تربیت یافتہ وائلڈ لائف ہیلتھ ماہرین، جس کے باعث جنگلی حیات میں بیماریوں کی بروقت تشخیص اور رپورٹنگ ممکن نہیں۔









