بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ڈیورنڈ لائن معاہدے سے روس، برطانیہ تصادم کا خطرہ ٹل گیا

 

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ’ جسے’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ تاریخی اعتبار سے موضوع بحث رہی ہے۔ یہ سرحد ایک معاہدہ کے تحت قائم ہوئی تھی۔ اور مسلسل تین درانی حکومتوں نے اس معاہدے کی تو ثیق نکی تھی۔ اس معاہدہ کی اصل غرض و غایت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ تاریخی اور سیاسی پس منظر یا بالفاظ دیگر وہ معروضی حالات سامنے رکھیں جن حالات میں ہزاروں میل دور سے انگریز تاجروں کے لباس میں یہاں برصغیر کو ’جسے ’’سونے کی چڑیا‘‘ ‘ کہا جاتا تھا‘ اپنے پنجرے میں قید کرنے کی غرض سے آئے اور آہستہ آہستہ یہاں قدم جما کر پورے ہندوستان پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

چوں کہ شکاریوں کی نظر بہت دور تک کام کرتی ہے اس لیے جب انگریزوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں اور اردگرد کے سیاسی حالات اور ماحول کا جائزہ لیا تو اپنے آپ کو دونوں جانب سے خطرے میں محسوس کیا۔ ان میں ایک بڑا خطرہ دور فاصلے پر نظر آرہا تھا جبکہ دوسرا بہت زیادہ قریبی خطرہ پختونوں سے تھا۔ ان کی تاریخ، اجتماعی مزاج اور نفسیات سے واقفیت رکھنے والے انگریزوں نے سوچا کہ یہ قوم کل کو ہمارے لیے درد سر بن جائے۔ دور سے نظر آنے والا دوسرا بڑا خطرہ روس تھا جو ان کی نظر میں آئندہ وقتوں میں اس قابل ہوسکتا تھا کہ ان سے ’’سونے کی چڑیا‘‘ چھین لے۔ بظاہر نظر آنے والے دونوں خطرات سے نمٹنے کے لیے انہیں ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ ہندوستان کے شمال مغرب سرحد کا راستہ تھا۔

ان نئے سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لارڈ کرزن نے اٹک کے اس پار علاقے باقی ہندوستان سے کاٹ دیے اور اسے نارتھ ویسٹ فرنٹیئر کا نام دیا۔ روس کے ساتھ افغانستان کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں، انگریزوں کو خوف تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلق اور دوستی نوآبادیاتی مفادات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ بقول خان عبدالولی خان مرحوم ’’یہاں سے برطانوی چیتے اور روسی ریچھ کے درمیان پنجہ آزمائی شروع ہوئی‘‘۔ ایک طرف برطانوی سامراج دوسری جانب روس کی طاقت اور درمیان میں پختون بین الاقوامی سیاست کے نرغے میں آگئے۔ لندن سے ہدایت یہ تھی کہ افغانستان پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہاں روس کا اثر و نفوذ نہ ہوسکے، کیوں کہ اس سے سلطنت برطانیہ کو بڑا خطرہ پیش آسکتا ہے۔

اس دن سے افغانستان کے امیر دوست محمد خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا گیا اور شاہ شجاع کو اعتماد میں لے کر برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ امیر دوست محمد خان کے قریبی ساتھیوں ، قبائلی سرداروں اور مولویوں کو بھاری رقم کے عوض خریدا گیا۔ اس طرح انگریز اپنی چال میں کامیاب ہو کر کوہ ہندوکش تک پہنچ گئے۔ ان کی سیاست کامیاب اور سلطنت محفوظ ہوگئی۔ امیر دوست محمد خان کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھا دیا گیا، اس شرط کے ساتھ کہ وہ انگریز اور سکھوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی دوسرے ملک سے خط و کتابت نہیں کریں گے اور جو طاقت بھی انگریز یا سکھوں پر حملہ کرے گی آپ ان کے خلاف لڑیں گے۔