اسلام آباد(نیوز ڈیسک )چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ججوں کو اعلیٰ عدالتوں میں تعینات کرتے وقت ان میں مخصوص قابلیت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ان عدالتوں کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے جہاں ان کا تقرر کیا جانا ہے۔
نجی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ مشاہدہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رولز کمیٹی کی 9 مارچ کو ہونے والی میٹنگ میں کیا جس میں جسٹس مقبول باقر، سابق جسٹس سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے بھی شرکت کی۔
میٹنگ کے دوران چیف جسٹس عمر بندیال نے لاہور ہائی کورٹ میں سِول لا میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی پر روشنی ڈالی، انہوں نے مزید کہا کہ بینچ کے دیگر 2 ماہرین میں سے ایک اگلے سال ریٹائر ہو جائیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عمر بندیال نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں فوجداری قانون میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی ہے اور ان میں سے چند کے علاوہ باقی سب کو کارپوریٹ، آئینی یا سول معاملات میں مہارت حاصل ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ میں جلد ہی 3 اسامیاں خالی ہوں گی، ان میں سے ایک یقینی اور 2 متوقع ہیں۔
کمیشن کے چیئرمین ہونے کے ناطے وہ ہر اسامی پر متعدد نامزدگیاں طلب کریں گے اور امید ہے کہ مناسب رائے کے ساتھ کمیشن کے اراکین بہتر فیصلے کریں گے۔
میٹنگ کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ججوں کی تقرری کے لیے انگریزوں کے وضع کردہ معیار کا حوالہ دیا جس کے مطابق ایک جج کو سب سے پہلے اور سب سے آخر میں ایک شریف النفس انسان ہونا چاہیے اور دیگر خوبیاں اس کے مطابق ہوں گی۔
اُس کا رویہ ایک جج جیسا ہونا چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ہر ایک کو غور سے سنے اور وکلا کے ساتھ شائستہ برتاؤ رکھنے کی صلاحیت کا مالک ہو ۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جج کو ملکی قوانین کا علم ہونا چاہیے کیونکہ جب تک وہ اسے اچھی طرح سے نہ جانتے ہوں گےاس وقت تک وہ اس پر عمل درآمد نہیں کر سکیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ پہلا معیار اہلیت کے ساتھ دیانت داری ہونا چاہیے۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے مشورہ دیا کہ جیسے جیسے شفافیت کا مطالبہ بڑھ رہا ہے، تمام چیزیں تحریری طور پر پیش کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے کہ ججوں کے لیے تحریری امتحان ہونا چاہیے کیونکہ یہ سول سروس کی تقرری نہیں ہوتی۔
جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ میٹنگ کی توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ مختلف خوبیوں کا جائزہ کیسے لیا جائے تاکہ امیدواروں کی درجہ بندی کے لیے معیارات وضع کیے جا سکیں، جس میں کچھ معروضی پیمائش پر مبنی طریقہ کار بھی شامل ہو۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ان معیارات کو کیسے لاگو کیا جائے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا خالی ہونے والے ہر عہدے کے لیے صرف ایک نامزدگی ہونی چاہیے اور کیا نامزدگی چیف جسٹس کی جانب سے ہی ہونی چاہیے یا بار کے نمائندوں سمیت دیگر اراکین کی جانب سے بھی نامزدگی ہونی چاہیے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر سنیارٹی ایک خودکار معیار نہیں، تو یقیناً ہمیں کچھ معیارات طے کرنے کی ضرورت ہے اور معیار صرف تقابلی تناظر میں ہی طے ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر صرف ایک ہی نام تجویز کیا جائے تو اس کا موازنہ کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر جب معاملہ سپریم کورٹ میں تقرریوں کا ہو۔









