بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

سائنسدانوں نے بڑھاپے سے بچنے کا ممکنہ طریقہ دریافت کرلیا

بیشتر افراد بڑھاپے کے ساتھ آنے والی جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں سے بچنے کی خواہش رکھتے ہیں اور لگتا ہے کہ بہت جلد ایسا ممکن ہوسکے گا۔

جی ہاں سائنسدانوں نے انسانی عمر بڑھنے کی رفتار سست کرنے کے حوالے سے اہم پیشرفت کی ہے اور وہ اس راز کو جاننے کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ کس طرح انسانی حیاتیاتی گھڑی کی رفتار سست کرکے لوگوں کو طویل عرصے تک صحت مند رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔

دہائیوں سے سائنسدانوں کی جانب سے انسانی غذا کی مقدار میں کمی کو اوسط عمر میں اضافے کے لیے اہم خیال کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے متعدد کلینیکل ٹرائلز کے نتائج بھی حوصلہ افزا رہے۔

مگر امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غذائی مقدار میں کمی لاکر انسانوں کے بڑھاپے کی جانب سفر کو سست کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

یہ بنیادی طور پر پہلا کنٹرول کلینیکل ٹرائل تھا جس میں دن بھر کی کیلوریز میں کمی لانے سے طویل المعیاد بنیادوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

کولمبیا یونیورسٹی میل مین اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین کے 2 سال تک جاری رہنے والے اس ٹرائل میں 21 سے 50 سال کی عمر کے 220 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا اور ان کے 2 گروپس بنائے گئے۔

ایک گروپ کی روزانہ کی غذائی کیلوریز کی مقدار میں 25 فیصد کمی کی گئی۔

یعنی جو افراد روزانہ 2 ہزار کیلوریز جسم کا حصہ بناتے تھے، ان کے لیے یہ مقدار 1500 کیلوریز کر دی گئی جبکہ دوسرے گروپ کی غذا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

جن افراد کی غذائی کیلوریز میں کمی لائی گئی تھیں انہیں پہلے مہینے روزانہ 3 وقت تیار کھانا دیا گیا تاکہ وہ غذا کی مقدار میں کمی کے عادی ہو جائیں جبکہ انہیں ماہرین کی مدد بھی فراہم کی گئی۔

اس کے مقابلے میں دوسرے گروپ کی غذائی عادات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

عمر کی رفتار میں اضافے کی شرح جاننے کے لیے محققین نے پہلے تحقیق کے آغاز پر خون کے نمونے جمع کیے۔

تحقیق کے ایک سال مکمل ہونے پر بھی خون کے نمونے جمع کیے گئے جبکہ 2 سال بعد یعنی کلینیکل ٹرائل کے اختتام پر بھی خون کے نمونے لے کر ڈی این اے میں بڑھاپے کی علامات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ڈی این اے کے تجزیے کے لیے 3 مختلف طریقہ کار استعمال کیے گیے تھے، جن میں سے 2 سے ان افراد کی حیاتیاتی عمر کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ تیسرے سے بڑھاپے کی جانب سفر کی رفتار کو دریافت کیا گیا۔

محققین نے بتایا کہ زیادہ تر افراد کے لیے کیلوریز کی مقدار میں 25 فیصد کمی لانا ممکن نہ ہوسکا اور وہ صرف 12 فیصد کمی لا سکے، مگر اتنی کمی سے بھی نمایاں تبدیلیاں مرتب ہوئیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ غذائی کیلوریز میں کمی لانے والے افراد کی عمر میں اضافے کی رفتار 2 سے 3 فیصد سست ہوگئی۔

ماہرین نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ ان افراد میں کسی بھی وجہ سے قبل از وقت موت کا خطرہ 10 سے 15 فیصد کم ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ طویل المعیاد بنیادوں پر کیلوریز کی مقدار میں کمی سے بڑھاپے کی رفتار پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ایک اور تحقیق پر بھی کام کر رہے ہیں جس میں 10 سال تک کیلوریز کی مقدار میں کمی کےاثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

محققین کے مطابق موجودہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کیلوریز کی مقدار میں کمی لانے سے صحت کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ لمبی اور صحت مند زندگی کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔

ماہرین ابھی یہ جان نہیں سکے کہ روزانہ کی غذائی کیلوریز میں کمی سے بڑھاپے کی جانب سفر سست کیوں ہو جاتا ہے مگر ان کے خیال میں اس سے خلیاتی سطح پر تبدیلیاں آتی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایجنگ میں شائع ہوئے۔