بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل، حفاظتی ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ روانہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے کل تک پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا جب کہ سابق وزیر اعظم حفاظتی ضمانت کے لیے زمان پارک سے لاہور ہائی کورٹ روانہ ہوگئے۔

عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتراضات کے حوالے کیا بنا ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ بائیو میٹرک ہوگئی وہاں سے سافٹ کاپی آئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر اعتراضات دور کردیے، خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج ہائیکورٹ کے آرڈر کو درست طور پر سمجھ نہیں سکے، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بتائیں کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیے گئے ہیں؟ شبلی فراز نے جواب دیا کہ جی، اعتراضات دور کر دیے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ خاموش ہو جائیں، آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں، ٹرائل کو بیان حلفی سے متعلق مطمئن ہوکر فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس بنیاد پر انڈر ٹیکنگ مسترد کردی ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے کہا کہ ناقابل ضمانت وارنٹ کو منسوخ نہیں کرسکتے، عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا انڈر ٹیکنگ ابھی بھی موجود ہے ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم کل ٹرائل عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں، درخواست گزار پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ ہم سب قانون کے سامنے برابر ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ درخواست گزار زخمی ہوا ہے اور انکو جان کا خطرہ ہے، عدالت نے کہا کہ امید ہے سیشن کورٹ سیکورٹی کی فراہمی کو اچھی طرح دیکھ لیں گی، خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری استدعا تھی کہ عمران خان کے وارنٹ منسوخ یا معطل کر دیے جائیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کی انڈرٹیکنگ اب بھی موجود ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے درخواست دائر کی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر بتایا گیا کہ سیکیورٹی انتظامات کئے جا رہے ہیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے اس حوالے سے حکم بھی دیا ہے، میں بھی دیکھوں گا اور سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کے خلاف اور مقدمات بھی درج ہیں اُن میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دی ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وہ اُن کا حق ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا کہ جو کچھ لاہور میں ہوا اس کی وجہ سے یقین دہانی قبول نہیں کر سکتا، میں نے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کا نہیں ،معطل کرنے کا کہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تحریریں یقین دہانی اب بھی موجود ہے ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جی اس وقت بھی 18 مارچ کو پیش ہونے کی یقین دہانی موجود ہے، اگر عدالت وارنٹ معطل کر دے تو کل عمران خان پیش ہو جائیں گے ، اصلی بیانی حلفی ٹرائل کورٹ کو جمع کر چکے ہیں، جو یہاں جمع کررہے ہیں یہ کاپی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہر صورت میں میرا موکل کل عدالت کے سامنے پیش ہونگے، خواجہ حارث نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے کل حاضری سے متعلق بیان حلفی جمع کرایا، خواجہ حارث نے عمران خان کی کل ٹرائل کورٹ کے سامنے کل پیش ہونے کی زبانی یقین دہانی کرائی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر فریقین کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم معطل کرتے ہوئے پولیس کو عمران خان کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو عدالتی اوقات کار میں عدالت پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی پیشی پر سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کل عدالتی وقت تک معطل کرتے ہوئے سماعت منگل تک کے لئے ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عمران خان کو کل عدالت پیش ہونے کا موقع دیا جائے،ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور اسلام آباد پولیس سکیورٹی مہیا کرنے کیلئے اقدامات کرے۔

سابق وزیراعظم نے وارنٹ منسوخی اور ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے پولیس کو روکنے کے لیے آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 18 مارچ کو اسلام آباد کی سیشن عدالت میں پیش ہونے کی یقین دہانی کرانے کے لیے آج لاہور ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں سماعت کےلیے مقرر کردی گئیں، لاہور ہائی کورٹ کا جسٹس طاق سلیم شیخ اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2 رکنی بینچ درخواست کی سماعت کرے گا۔

عمران خان نے 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، لاہور ہائی کورٹ میں دائر چار مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت پر 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا جب کہ 5 مقدمات میں جسٹس طارق سلیم شیخ سنگل بینچ کی حیثیت سے سماعت کریں گے۔

لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان خود لاہور ہائیکورٹ آئیں گے اور جج کو یقین دلائیں گے کہ وہ اسلام آباد کی عدالت جانے کے لیے تیار ہیں، اس حوالے سے انڈرٹیکنگ بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری صرف عدالت میں ان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے جاری کیے گئے تھے، وارنٹ کا مقصد عمران خان کی گرفتاری وارنٹ نہیں ہے، وارنٹ کا مقصد ان کی عدالت میں موجودگی کو یقینی بنانا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے حلف نامہ بھی دیا ہوا ہے اور آج عمران خان خود عدالت میں پیش ہو کر اس بات کو عدالت کے سامنے بیان کریں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پولیس نے تین ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی ہیں، آئی جی تقریباً چھ سے سات ہزار لوگ گرفتار کرنا چاہتا ہے، یہ سیدھی سیدھی انتقامی کارروائی ہے، اس سے پاکستان بھر میں ماحول خراب ہو جائے گا۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید نے کہا کہ چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان آج 3 بجے لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے لیے روانہ ہوں گے۔

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری: زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں 3 بجے تک توسیع

قبل ازیں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں 3 بجے تک توسیع کردی۔

زمان پارک پولیس آپریشن روکنے کی فواد چوہدری کی درخواست پر جسٹس طارق سلیم شیخ سماعت کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پچھلے دو دنوں میں آپ نے پاکستان کو اور لاہور کو بحران سے بچایا ہے، لوگوں کی زندگیاں آپکی مداخلت سے بچی ہیں، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا آئی جی پنجاب نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب سے ملاقات کی، ہم نے عمران خان کی سیکیورٹی پر بات چیت کی، پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قانون کے مطابق سیکیورٹی دیں گے، دوسرا معاملہ اتوار کے جلسے کا تھا ہم پیر کے روز لاہور میں جلسہ کریں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ریلی نہیں نکالیں گے، ہم جلسے کے لیے پانچ دن پہلے انتظامیہ کو آگاہ کریں گے، عمران خان کی حفاظتی ضمانت دائر ہو گئی ہے، ہماری استدعا ہے کہ آئی جی ہمارے کارکنان کو گرفتار نہ کریں، عدالت نے کہا کہ جن لوگوں نے زیادتی کی وہ ادھر سے یا دوسری طرف سے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ، اب تو کیمرے لگے ہیں چہرہ صاف نظر آ جاتا ہے، آپ کی ساری باتوں میں ایک لیگل ایشو ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ دو معاملے ہیں کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ میں ہے، اس اسٹیج پر ہم کیسے حفاظتی ضمانت سن سکتے ہیں، وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے آپ کے پاس آئیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کیس میرے پاس نہ بھی آئے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہو گا، ہم نے کہا ہے کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا، عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ لوگوں کو سیکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی کو درخواست دیں جو ایک طریقہ کار ہے، اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کینٹیرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کے لیے استعمال کرنے چاہیے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بھی چاہتے ہیں اس کو طریقہ کار کے مطابق کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر ہمیں سرچ وارنٹ کی تعمیل کرانی ہے تو اس پر بھی عدالت حکم جاری کرے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ پولیس کی قانونی معاملات پورے کرنے کے لیے زمان پارک تک رسائی نہیں ہے، فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے اجازت مانگ رہے ہیں انہوں نے ایک ایف آئی ار 2500 لوگوں کے خلاف درج کر دی ہے۔

وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ دو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں ایک عمران خان اور ایک رانا ثناء اللہ کے خلاف، آئی جی پنجاب یہ بتائیں یہ کیا طریقہ کار رانا ثنا اللہ کے وارنٹ کی تعمیل کیوں نہ ہوئی، اس معاملے میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، میں یقین دہانی کراتا ہوں عمران خان یہاں پیش ہوں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں کہ ایک سول جج سے سمن آیا ہے تو آپ کیسے اسکی تعمیل کرائیں گے، وکیل عمران خان نے کہا کہ تعمیل کا قانون موجود ہے ۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی تعمیل ہو گی یا نہیں ہو گی یہ تب فیصلہ ہو گا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے، مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے جائے وقوعہ وزٹ کرنا ہے ہمیں اجازت دی جائے ، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں ۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے انتقامی کاروائی بالکل نہیں ہو گی، ہم جس کو گرفتار کریں گے انکے ساتھ قانون کی تحت برتاؤ ہو گا، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ان کو کیسے مطمئن کیسے کریں گے ، آپ اس سارے معاملے میں شفافیت کیسے لائیں گے ۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں ان سے اجازت نہیں لوں گا کہ فلاں بندے نے پولیس پر پٹرول بم مارا ہے ہم اسے گرفتار کرنے لگے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کیپمین کیا کرنی ہے ہم تو اپنی روٹین کی زندگی نہیں گزار پا رہے، آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا ہے کہ ثبوت لیکر ملزم کو کہوں جا بیٹا ضمانت کرا لے، ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی صاحب کہ رہے ہیں کہ قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔

عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کے معاملے پر آپ لوگ متعلقہ حکام کو درخواست دے سکتے ہیں، عدالت نے ریمارکیس دیے کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر حل نکالیں، آئی جی پنجاب نے کہا کہ اسلام آباد سے وارنٹ منسوخ کی درخواست خارج ہو چکی ہے، عدالت اس بارے فیصلہ کر دیے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس یہ کیس نہیں ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ تین بجے دوبارہ کیسے سنیں گے

لاہور ہائیکورٹ نے سماعت تین بجے تک ملتوی کرتے ہوئے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں تین بجے تک توسیع کردی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت بائیو میٹرک نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی، عدالتی ہدایت پر لاہور سے ہی عمران خان کی بائیو میٹرک کرائی جارہی ہے، بائیو میٹرک سلپ آنے کے بعد ہی عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں آپریشن روکنے کا گزشتہ روز جاری کیا گیا حکم آج (بروز جمعہ) تک برقرار رہے گا۔

جمعے کے روز زمان پارک کے باہر موجود ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے ارد گرد علاقے میں پولیس کہیں موجود نہیں جب کہ عمران خان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے متعدد حامی موجود ہیں جنہوں نےکسی بھی ممکنہ پولیس آپریشن کی مزاحمت کرنے کے لیے لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔

عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وارنٹ منسوخی اور ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے پولیس کو روکنے کے لیے دائر درخواستیں آج ہی سماعت کے لیے مقرر کردیں۔

عمران خان نے ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پی ڈی ایم حکومت کے آتے ہی ملک بھر میں روزانہ مقدمات درج ہورہےہیں، وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا، جان کو شدید خطرات ہیں، پورے ملک میں درج مقدمات کا ریکارڈ دیں۔

عمران خان نے اسلام آبادہائیکورٹ سے استدعا کی کہ پولیس کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روک دیں، درخواست میں سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

عمران خان نے اپنے خلاف کیسز کی تفصیلات فراہمی کی پٹیشن بھی فائل کردی۔

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ آفس نے سابق وزیراعظم کی وارنٹ منسوخی، درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کی درخواستوں پر اعتراضات عائد کیے۔

عمران خان کی دونوں پٹشنز پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا بائیو میٹرک نہیں ہے، جس معاملے پر پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی، اسے دوبارہ کیسے سن سکتی ہے، رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ کسی پٹیشن پر کیسے ’بلیکنٹ آرڈر‘ جاری کیا جا سکتا ہے؟

بعد ازاں عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کردی گئی، عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہمی کے لیے دائر درخواست پر بھی سماعت ہو گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کچھ دیر بعد سماعت کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی تھی اور انہیں 18 مارچ کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا تھا، اس سے ایک روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔

پی ٹی آئی، حکومت پنجاب نے ریلیوں، سیکیورٹی، قانونی معاملات پر ٹی او آرز طے کرلیے

پی ٹی آئی اور حکومت پنجاب کے درمیان ریلیوں، سیکیورٹی اور قانونی معاملات کے طے ٹی او آرز کے مطابق تحریک انصاف ورانٹ کی تکمیل، سرچ ورانٹ کے لیے پولیس کے ساتھ تعاون کرے گی۔

معاہدے کے مطابق پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے شبلی فراز اور علی خان کو فوکل پرسن نامزد کیا ہے، پولیس کی جانب سے ایس ایس پی عمران کشور فوکل پرسن ہوں گے، پی ٹی آئی چودہ اور پندرہ مارچ کو درج ہونے والے مقدمات میں تفتیش میں تعاون کرے گی، تحریک انصاف اتوار کی بجائے پیر کے روز جلسہ کرے گی۔

معاہدے کے مطابق جلسے کی اجازت کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے گا، تحریک انصاف ریلی نکالنے سے کم از کم پانچ دن پہلے اگاہ کرے گی، عمران خان کی سکیورٹی کے لیے بنائی گی گائیڈ لائن پر عمل ہوگا، تحریک انصاف سکیورٹی کے لیے متعلق حکام کو درخواست دے گی۔

معاہدے کے مطابق سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ معاملات کے لیے فوکل پرسن شبلی فراز ہونگے، معاہدہ لاہور ہائی کورٹ میں 3 بجے جمع کرایا جائے گا۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ کل پنجاب انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد معاملات کے حل پر اتفاق ہوا ہے، آج لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس طارق شیخ صاحب کی عدالت میں متفقہ حل دے دیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو اتوار کو جلسہ کرنے سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگ آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کے ساتھ بیٹھیں اور میکانزم بنائیں، آپ سب مل کر اس معاملے کا حل نکالیں اور سسٹم کو چلنے دیں، اگر جلسہ کرنا ہے تو پندرہ دن پہلے پلان کریں، کوئی شادی بھی کرتا ہے تو پہلے پلان کرتا ہے، خدا کا واسطہ ہے سسٹم کو چلنے دیں۔

عمران خان کی گرفتاری کی کوشش

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔

پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔