بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

کورونا وائرس کس طرح انسانوں میں پہنچا؟ 3 سال بعد ممکنہ جواب سامنے آگیا

کورونا وائرس کی وبا کو اب 3 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، مگر اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر یہ بیماری کس طرح انسانوں میں پھیلنا شروع ہوئی۔

اب تک اس حوالے سے 2 خیالات سامنے آرہے تھے، ایک تو یہ تھا کہ کسی لیبارٹری سے وائرس لیک ہوا اور دوسرا خیال یہ تھا کہ کسی جنگلی جانور سے یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔

سائنسدانوں کا شروع سے ماننا ہےکہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان کی وائلڈ لائف مارکیٹ سے کسی جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوکر پھیلنا شروع ہوا مگر اب تک اس کا ثبوت نہیں مل سکا تھا۔

مگر اب سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے اب اس وائرس کو پھیلانے والے ممکنہ جانور کی شناخت کرلی ہے۔

ان سائنسدانوں نے ووہان کی اس مارکیٹ میں موجود جانوروں کے جینیاتی نمونوں کے ڈیٹاکا تجزیہ کیا اور ان کے خیال میں جو جانور اس عالمی وبا کو پھیلانے والے وائرس کا باعث بنا وہ ریکون ڈوگ نامی ایک ممالیہ جاندار ہے۔

اس مارکیٹ کو وائرس کے پھیلاؤ کے بعد یکم جنوری 2020 کو بند کر دیا گیا تھا اور وہاں موجود جانوروں کے جینیاتی نمونے اس بندش کے 2 ماہ بعد اکٹھے کیے گئے تھے۔

اس ڈیٹا کو گزشتہ سال چینی سائنسدانوں نے عالمی ڈیٹابیس کے لیے جاری کیا تھا۔

تحقیقی ٹیم نے اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد ریکون ڈوگ کے نمونوں میں کووڈ 19 کی تصدیق کی۔

دیگر ممالیہ جاندار جیسے civets کے نمونوں میں بھی کورونا وائرس کو دریافت کیا گیا۔

اس دریافت سے یہ ٹھوس طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ ریکون ڈوگ کی وجہ سے کووڈ کی وبا متحرک ہوئی مگر محققین کا ماننا ہے کہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے۔

انہوں نے اپنی تحقیقی کام کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کے سامنے پیش کیا ہے۔

اس تحقیقی ٹیم میں شامل سائنسدانوں نے بتایا کہ اس ڈیٹا سے ووہان کی مارکیٹ سے وائرس کے آغاز کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔

انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ چینی سائنسدانوں نے اس جینیاتی ڈیٹا کو پہلے جاری کیوں نہیں کیا۔

سائنسدانوں کے مطابق وہ اس دریافت پر ایک رپورٹ مرتب کر رہے ہیں جس کو جلد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکون ڈوگ میں وائرس کی موجودگی سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

عالمی ادارہ صحت نے اس دریافت پر کہا ہے کہ اس سے وبا کے آغاز کے حوالے ٹھوس جواب تو نہیں ملتا مگر یہ ڈیٹا بہت اہم ہے، کیونکہ اس سے ہم جواب کے قریب پہنچ گئے ہیں۔