اسلام آباد: اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو میں بہت آسانی سے کہہ سکتا ہوں “درس خیالات کا انتخاب “ کوئی شخص یا قوم ترقی اپنے آئیڈیاز ، اپنے خیالات کی وجہ سے کرتی ہے ہمارا دماغ خیالات کا کارخانہ ہے ۔ دن بھر ہمارے ذہن میں 70 سے 90 ہزار کے درمیان خیالات جنم لیتے ہیں۔ جی ہاں ! 70 سے 90 ہزار ، اور انہی خیالات پر ہماری اچھی اور بری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھے برے، مثبت منفی، فائدہ مند نقصان دہ خیالات ہمارے اپنے اختیار میں ہیں ؟ تو اس کا جواب ہے، جی ہاں !
تھوڑی سی مشکل بات ہے لیکن سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوچنا یا خیالات کا آنا جانا کیا ہے ؟ یہ اپنے آپ سے سوال کرنا اور ان کا جواب دینا تو ہے۔ یا تو آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے یا اختلاف دونوں صورتوں میں آپ خود سے سوال کریں گے کہ میری بات درست ہے یا غلط دن بھر میں ہمارے ذہن میں آنے والے خیالات سوالات اور جوابات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ایک اور مزیدار بات یہ بھی ہے دیکھیں کہ جوابات کا انحصار بھی ان سوالات اور ہماری نیت پر ہی ہوتا ہے اس بات کو ہم کچھ دلچسپ مثالوں سے سمجھتے ہیں.
ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز اپنی کتاب میں بڑی سوچ کا جادو (THE MAGIC OF THINKING BIG) میں لکھتے ہیں ہیں کہ ہمارا دماغ ایک کارخانے کی طرح ہے۔ جس میں ہر وقت خیالات پیدا ہو خیالات کی پیداوار ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے اس کارخانے میں دو انچارج ہوتے ہیں ایک کامیابی اور دوسرے ناکامی کا۔ یہ دونوں انچارج بہت سمجھدار اور فرمانبردار ہیں۔ ہم جس طرح کی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فراہم کردیتے ہیں اگر ہم غیرمؤثر سوالات کریں گے تو غیرمؤثر جواب ملیں گے اور مفید سوالات کریں گے تو مفید ملیں گے۔
مثال کے طور پر اگر میں سوچوں کے لوگ مجھے پسند کیوں نہیں کرتے تو اس قسم کے جوابات ملیں گے۔ کیونکہ تم میں ایسی خوبی نہیں کہ لوگ تمہیں پسند کریں کیونکہ دنیا بہت مطلبی ہے کیوں کہ تمہارے اندر اچھی طرح گفتگو کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ تمہیں غصہ جلدی آ جاتا ہے وغیرہ اس کے برعکس اگر یہ سوال کیا جائے کہ لوگ مجھے کس طرح پسند کرسکتے ہیں تو اس قسم کے جوابات مل سکتے ہیں اگر میں دوسروں کے مسائل کے متعلق سوچنا شروع کر دوں اگر میں غصے کے بجائے ٹھنڈے دل سے بات سنو اور کروں اگر میں لوگوں کو متاثر کرنے کے بجائے ان میں سچی دلچسپی لینا شروع کروں اگر میں اپنے اعتماد میں اضافہ کرلو وغیرہ
ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ اگر میں خود سے سوال کروں کہ میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکتا ناکامی کا انچارج فورا آ جائے گا اور کہے گا کہ مجھ میں مستقل مزاجی نہیں ہے میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہے کہ کاروبار کر سکوں میں کئی کاموں میں ناکام ہو چکا ہوں میرے پاس نہ تو رشوت ہے نہ سفارش وغیرہ اگر میں اس طرح کے سوال کروں کہ مجھے کامیاب ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کامیابی کا انچارج فورا جائے گا اور کہے گا میں محنتی اور ایماندار انسان ہوں میرے پاس نئے خیالات ہیں میں کتنے ہی کاموں میں پہلے بھی کامیاب ہو چکا ہوں دنیا کے متعلق بھی ہمارے خیالات کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر آپ سو چیں کہ انسان کتنا لالچی اور خود غرض ہے تو ناکامی کا انچارج فورا کہے گا کہ صحیح بات ہے۔ آج انسان دولت کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے آج انسان اپنے بھائی کے خون کا پیاسا ہے آج انسان اپنے معمولی فائدے کے لئے کسی کا بڑے سے بڑا نقصان کر سکتا ہے وغیرہ
اس کے برعکس اگر آپ یہ کہیں گے کہ اللہ انسان سے کتنی محبت کرتا ہے اور اس نے انسان کو محبت کرنے کے لئے بنایا ہے۔ یہ سن کر کامیابی کا انچارچ فَوراً کہے گا یہ ملک یا یہ دنیا اللہ کے نیک بندوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔ پاکستان صدقہ خیرات کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ یہاں لوگ خود بھوکے سو جاتے ہیں لیکن دوسروں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ایک سیمینار میں ایک سوال کیا تھا کہ آپ میں کس کس کو تقریر کرنے کا شوق ہے۔ کئی لوگوں نے ہاتھ بلند کئے۔ میں نے دو شرکاء کو اسٹیج پر بلایا دونوں کو الگ الگ پرچی دی جس پر لکھے ہوئے موضوع پر انہیں دو منٹ کی تقریر کرنی تھی پہلی پر لکھا تھا ’’پاکستان میں کاروبار کے موقع بالکل ختم ہوگئے ہیں‘‘ نوجوان نے ایک ایک کر کے گنوانا شروع کر دیا کہ حکومت سیاسی جماعتیں اور عسکری اور کس طرح ادارے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ سب نے تالیاں بجائیں بہت سارے لوگ ان کی بات سے اتفاق کرنے لگے کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد دوسرے شریک نے پرچی کھولی۔ اس پر لکھا تھا ’’پاکستان میں کاروبار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔‘‘ اب اس نے دلیل دینا شروع کی کہ کس طرح ہمارے ملک میں خام مال اور لیبر سستی ہونے کی وجہ سے کاروبار میں منافق کی مکانات پہلے سے زیادہ روشن ہے۔ اس نے بتایا کہ ڈالر کا مہنگا ہو جانا ایکسپورٹرز کے لیے کتنے بڑے مواقع لایا ہے وغیرہ۔ یہی کچھ میں نے اپنے ایک ڈبییٹ کمپیٹشن میں ڈیبٹرر کو بلا کر کیا۔ ایک ڈبیٹر پوری تیاری سے آتا ہے کہ اسے موضوع کی حمایت میں بولنا ہے اور موضوع ہے ’’مسائل کی جڑ دعوت ہے‘‘ ڈیبیٹ شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے اس ڈیبیٹر سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس موضوع کے حق میں نہیں مخالفت میں بولنا ہے۔ وہ ڈیبیٹر پانچ منٹ کے اندر ایسے ایسے دلائل سوچ لیتا ہے کہ پورا ہال یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہےکہ ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ فلسفہ میں ہم بہت اہم بات سیکھتے ہیں کہ جس بات کو دلیل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اسے دلیل سے رد بھی کیا جا سکتا ہے یعنی دنیا میں کوئی بھی ایسی حقیقت نہیں ہے جس سے ثابت کر رہے ہو کوئی دوسرا اسے دلیل سے رد نہیں کر سکے۔ یاد رکھیں اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کون درست بات کر رہا ہے اور کون غلط۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ کون زندگی کو مثبت سمت میں لے جا رہا ہے اور کون منفی ؛ کون کامیابی کی طرف لے جا رہا ہے اور کون ناکامی کی طرف، کون زندگی کو آسان بنا رہا ہے اور کون مشکل۔ اور ان باتوں کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن کو کس نیت سے کس قسم کے سوالات دے رہے ہیں۔
اگر آپ کو صبح آٹھ بجے اٹھنا ہو ۔آپ کی صبح آنکھ کھلے ، گھڑی پر نظر پڑے آٹھ بج رہے ہیں۔ اگر آپ کی اٹھنے کی نیت نہیں ہوگی تو دماغ میں سوال آئے گا کہ اگر پانچ منٹ اور مسئلہ تو نہیں ؟ دماغ میں بیٹھا ناکامی کا انچارج آپ کی نیت جانتا ہے فورا کہے گا کہ پانچ منٹ سے کیا ہوتا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لہذا آپ سو جاتے ہیں۔جب آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ بج رہے ہیں ۔آپ جلدی جلدی اٹھتے ہیں، تیار ہوتے ہیں، گاڑی یا بائیک پر پورے راستے اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ ایکسیڈنٹ اور پولیس سے بچتے بچاتے پانچ دس منٹ دیر سے پہنچتے ہیں۔ صرف ایک سوال کی وجہ سے ، درست سوال آپ کو آٹھ بجے بستر سے اٹھاتا، آپ سکون سے ناشتہ کرتے ہیں، سکون سے ڈرائیو کرتے، پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتے اور اپنے سینئر پر اچھا تاثر بھی چھوڑتے۔ ہونا کیا چاہئے؟ خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی اپنے زہن سے درست سوال کرنا سکھائیں۔ درست سوال ست کیا مراد ہے ؟ درست سوال سے مراد ہے کہ مسائل کے متعلق سوال کرنے کے بجائے مسائل کے حل کے متعلق سوال کرنے کی عادت ڈالیں آپ یا آپ کی اولاد سے کوئی غلطی ہوجائے اور آپ اسی تفتیش میں پڑے رہیں کہ یہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوئی کون کون زمہ دار ہے ، کس کی لاپرواہی تھی وغیرہ تو اس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ سوال کریں کہ ایسا کیا کریں کہ یہ غلطی اگلی دفعہ نہ ہو؟ اس سوال کے نتیجے میں آپ کا دماغ درست سمت میں سفر کرے گا۔ لسہ لو قصوروار اور شرمندہ کرنے کے بجائے حقیقت میں مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
دنیا بھر کے انسانوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہماری اکثریت اپنی طاقت یا اپنی خوبیوں پر توجہ کرنے کے بجائے اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر زیادہ نظر رکھتی ہے۔ اس کی مثال ڈونلڈکفٹن نے اپنی کتاب how full is your bucket میں ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے دی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا بچہ رپورٹ کارڈ لے کر گھر آئے اور آپ دیکھیں کہ اس کے دس میں سے نو مضامین میں A Plus جبکہ ایک مضمون میں C گریڈ کے نمبر آئے ہیں۔ آپ اپنے بچے سے سب سے پہلے کس مضمون کے بارے میں بات کریں گے ؟ 90 فیصد سے زائد لوگوں کا جواب تھا کہ اس مضمون میں جس میں سب سے کم نمبرز آئے ہیں۔ یہ غلطی ہم پوری زندگی میں اپنے ساتھ بھی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی گھروں اور دفاتر میں جھگڑوں اور نفرتوں کی بڑی وجہ کیا ہوتی ہے ؟ یہی کہ ہم دن رات محنت کرکے دس میں سے نو کام کرتے ہیں مگر ہمیں ان نوکاموں پر تعریف کے بجائے ایک کام نہ کرنے پر باتیں سننا پڑتی ہیں ۔ جوبات ہمیں تکلیف پہنچاتی ہے، وہ دوسروں کو بھی پہنچاتی ہوگی، بڑوں کو تکلیف پہنچاتی ہے تو بچوں کو بھی پہنچاتی ہوگی۔ لہذا سوالات کی مدد سے آپ اپنا فوکس مسائل سے نکال کر حل کی طرف با آسانی لاسکتے ہیں کچھ عرصہ آپ کو مشکل ہوگی لیکن شعوری کوشش کرتے رہنے سے آپ لاشعوری طور پر اس انداز میں سوچنے کے عادی ہوجائیں گے۔
شعور اور لاشعور
آپ کے زہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ مثبت سوال کی طرف زہن کیسے جائے گا۔ زہن میں خیالات تو خود بخود آتے چلے جاتے ہیں ہمارے اختیار میں تھوڑی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسا سوچتے ہیں تو غلط سوچتے ہیں۔ زہن میں خیالات دونوں طرح سے آتے ہیں۔ شعوری طور پر بھی لاشعوری طور پر بھی۔ گاڑی چلانے سے لے کر مثبت یا منفی سوچ تک ہر کام شعور سے لاشعوری میں داخل ہوتا ہے۔ جس طرح گاڑی چلانے کے لیے شروع میں آپ کو مشکل ہوتی ہے کہ کب ایکسی لیٹر دبانا ہے ، کب کلچ ، کب بریک اور کب کون ساگیئر ڈالنا ہے اور یہ سب آپ بہت سوچ سمجھ کے کررہے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ آپ یہ سارے کام اونگنے ہوئے بھی درست انداز میں کرنے لگتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنا یا زہن کو درست سوالات دینا بھی ایسا ہی ہے ۔ابتدا میں شعوری طور پر مسائل کے بجائے ان کے حل کے متعلق سوچنا پڑے گا لیکن آہستہ آہستہ یہ سب کام لاشعوری طور پر ہوگا۔
جیسے جیسے آپ درست انداز میں سوچنے لگیں گے، آپ کے مسائل کو حل کرتے چلے جائیں گے۔ اور زہن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ جتنے زیادہ مسائل حل کرتا ہے، اس کی صلاحیتوں میں اسی اتنا سب سے اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یقین کریں، آپ کی زندگی کا اہم ترین مسئلہ درست خیالات کا انتخاب ہے اور درست خیالات تک رسائی کی چابی درست سوالات میں پوشیدہ ہے۔
کیا اچھے برے، مثبت منفی، فائدہ مند نقصان دہ خیالات ہمارے اختیار میں ہیں ؟
 
	
 
      






