بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں نہیں، نمٹنا پاکستان کی ذمہ داری ہے، طالبان

طالبان کے سینئر رہنما سہیل شاہین نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگردوں کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے اور اس لیے یہ اسلام آباد کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔

اگست 2021 میں سقوطِ کابل کے بعد سے، ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر متعدد دہشتگرد حملے کیے ہیں اور شہریوں بھی نشانہ بنایا ہے۔

حکومت پاکستان نے بارہا عبوری افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو لگام ڈالے اور اس گروپ کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

پاکستانی وزیر دفاع متعدد بار افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مبینہ بیسز کو ختم کرنے کے لیے سرحد پار کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آئی ہے۔

عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں سہیل شاہین نے کہا کہ’ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں ہے، جیسا کہ میں نے کہا ہمارا عزم ہے کہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین (عسکریت پسندی کے لیے) استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے’۔

انہوں نے کہا ’وہ پاکستان کے اندر، قبائلی علاقوں میں ہیں۔ لہٰذا، پاکستان کے اندر، یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے کیا ایک نکتہ ڈیورنڈ لائن بھی ہے، یہ 2,640 کلومیٹر (1,640 میل) طویل سرحد ہے جو اس وقت بنائی گئی تھی جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔

1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے آج تک یہ لائن افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے طور پر کام کرتی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن دونوں ریاستوں کے درمیان سرکاری سرحد ہے، جبکہ افغانستان نے تاریخی طور پر اسے مسترد کیا ہے۔

سہیل شاہین نے اسی حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اسے سرحد نہیں کہا جاتا، اسے ایک لائن کہا جاتا ہے‘۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر، سینئر طالبان رہنما نے کہا کہ ان کا ملک سیکیورٹی فورسز کے ساتھ نہیں بلکہ ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہماری پالیسی پرامن بقائے باہمی اور پڑوسیوں اور دیگر ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب، یہ ہماری پالیسی اور پوزیشن ہے، یہ ان (پاکستان) پر منحصر ہے، آپ ان سے پوچھیں کہ ان کی پالیسی کیا ہے۔ اگر وہ بھی یہی چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے، میرے خیال میں۔ یہ خطے کے لیے اچھا ہے، پڑوسی ممالک کے لیے اچھا ہے، افغانستان کے لیے اچھا ہے، ہم سب کے لیے اچھا ہے۔‘

ٹی ٹی پی 2000 کی دہائی میں اپنے عروج پر تھی، اور اس نے 2007 میں اس وقت پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ حصوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا تھا، جس پر شریعت کا سخت نفاذ تھا۔

اس دوران عسکریت پسندوں نے دہشت گردی کا راج شروع کیا، سیاست دانوں، گلوکاروں، فوجیوں اور مخالفین کو قتل اور سر قلم کیا۔ انہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی اور لڑکیوں کے تقریباً 200 اسکولوں کو تباہ کر دیا۔

انہیں دو سال بعد ایک بڑے فوجی آپریشن کے زریعے بے دخل کر دیا گیا۔ تاہم، پاکستانی طالبان اور ریاست کے درمیان جنگ بندی ختم ہونے کے بعد یہ گروپ گزشتہ سال سے دوبارہ مضبوط ہو رہا ہے۔