بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

افغان بچوں کو کینسر سے بچانے کیلئے اسرائیل اور پاکستانی ماہرین کا تعاون

کراچی (ویب ڈیسک) اسرائیلی اخبار’’دی یوروشلم پوسٹ‘‘ کے مطابق پاکستان میں لاہور کے طبی مراکز کے ساتھ کام کرنے والی ایک اسرائیلی ٹیم کی سربراہی میں ایک غیر معمولی بین الاقوامی کوشش کے ذریعے افغانستان میں بچوں کو آنکھوں کے ممکنہ مہلک کینسر سے بچنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔

فابیان کا کہنا ہے کہ سیاست سیاست دانوں کے لیے ہوتی ہے۔ ہم سب طبی پیشہ ور ہیں، لہذا ہماری دنیا میں کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ اسرائیل پاکستان کا’’ریٹینوبلاسٹوما سلک روڈ پروگرام‘‘ افغان بچوں کے لئے ہے، پروگرام میں اسرائیل کی تین ٹیمیں ،ایک اسرائیل،دوسری افغانستان اور تیسری پاکستان میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا ہسپتال شیبا میڈیکل سینٹر پاکستان میں افغان بچوں کے علاج کاپروگرام چلا رہاہے اور فنڈنگ کر رہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

اسرائیلی میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹروں نے پاکستانی طبی مراکز کے ساتھ مل کر ریٹینوبلاسٹوما سلک روڈ پروگرام بنایا۔شیبا میڈیکل سینٹر میں آنکھ کے ٹیومر کے علاج کے ماہر پروفیسر آئیڈو فابیان متاثرہ افغان بچوں کے علاج کے لیے پاکستان منتقلی کی قیادت کررہے ہیں۔

وہ 2017 سے کینسر پر ایک مطالعہ کر رہے تھے جب انہوں نے افغانستان میں اس کی سخت ضرورت کو دیکھا۔تاہم، 2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد، افغانوں کے لیے ملک چھوڑنے کی اجازت حاصل کرنا بہت زیادہ مشکل ہو گیا۔

فابیان کا کہنا ہے کہ اگر اس کا مؤثر طریقے سے علاج نہیں کرتے ہیں، تو بچہ مر جائے گا،نہ صرف بینائی ، ایک آنکھ یا دونوں آنکھیں کھونا، بلکہ اس سے بچے کی موت ہوجاتی ہے۔

افغانستان میں اس کےعلاج کا کوئی مرکز نہیں ۔فابیان نے کئی پاکستانی طبی مراکز کے ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ کیا تاہم لاہور میں چلڈرن ہسپتال کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔

چلڈرن ہسپتال کی پیڈیاٹرک آنکولوجسٹ ڈاکٹر ہما ظفر کا کہنا ہے کہ ان تمام مریضوں کے لیے جن کی افغانستان میں ریٹینوبلاسٹوما کی تشخیص ہوئی ہے،ان بچوں کے علاج کے لیے افغانستان میں سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔

سفر کے دوران افغانوں کو درپیش رکاوٹوں کی وجہ سے، فیبیان نے شیبا میڈیکل سینٹر سے تین ٹیموں کو منظم کرنے کی درخواست کی اور فنڈ حاصل کیا۔ پہلی اسرائیل میں مقیم شیبا ٹیم ہے جو پروگرام کو مربوط کرنے میں مدد کرتی ہے۔

افغانستان میں دوسری ٹیم جو بچوں اور ان کے اہل خانہ کو علاج کے لیے پاکستان میں داخلے کی خصوصی اجازت حاصل کرنے کے لیے کابل لے جانے کا کام سونپا گیا ہے۔ وہ ٹیم پھر خاندانوں کو پاکستانی سرحد پر لے جاتی ہے۔

سرحد پر، پاکستان کی طرف، تیسری ٹیم ان کا استقبال کرتی ہے، انہیں لاہور پہنچاتی ہے، اور ان کے لیے رہائش تلاش کرتی ہے۔اسرائیلی ہسپتال علاج کے لیے ٹیلی میڈیسن کا استعمال کرتا ہے جب کوئی بچہ افغانستان میں صحت کے مرکز میں پہنچتا ہے، تو ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، اور ڈیٹا اسرائیل میں ٹیم کو بھیجا جاتا ہے ،ورچوئل مشاورت سے شیبا کو یہ تعین کرنے میں مدد ملتی ہے کہ بچہ کس مرض میں مبتلا ہے اور آیا خاندان کو پاکستان آنے میں مدد کرنا بچے کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔

فابیان کا کہنا ہے کہ سیاست سیاست دانوں کے لیے ہوتی ہے۔ ہم سب طبی پیشہ ور ہیں، لہذا ہماری دنیا میں کوئی سرحدیں نہیں ہیں کئی ماہ قبل اس پروگرام کا آغاز ہوا اور ٹیموں نے تقریباً 10 مریضوں کو منتقل کیا ہے۔

ڈاکٹر ظفرکا کہنا ہےکہ چلڈرن ہسپتال نے کئی بچوں کا کامیابی سے علاج کیا ہے اور ایک بچہ پہلے ہی کامیاب طریقہ کار کے بعد افغانستان واپس جا چکا ہے۔

ظفر اور فابیان دونوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ شیبا مزید فنڈز فراہم کرتی رہے گی تاکہ یہ پروگرام ترقی کر سکے اور بہت سے بچوں کی مدد کر سکے۔ظفر نے کہا، مجھے امید ہے کہ انہیں کافی فنڈنگ ملے گی، کہ وہ وقت پر ہمارے مرکز تک پہنچ سکیں گے۔اگر وہ کسی مریض کی تشخیص کرتے ہیں اور ہمارے پاس بروقت منتقلی ہوتی ہے، تو میرے خیال میں ان کو علاج فراہم کرنے کا یہ بہترین وقت ہے اور اس طرح ہم ایک زندگی بچا سکتے ہیں۔

ریٹینوبلاسٹوما آنکھ کا کینسر ہے جو عام طور پر پانچ سال تک کے چھوٹے بچوں میں پایا جاتا ہے۔ زیادہ آمدنی والے ممالک میں، جہاں اس مرض میں مبتلا بچے مختلف قسم کے علاج حاصل کر سکتے ہیں، تقریباً سبھی زندہ رہتے ہیں، حالانکہ بہت سے متاثرہ آنکھ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تاہم، کم آمدنی والے ممالک میں، بقا کی شرح 50 فیصد سے کم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ہدف ہے کہ 2030 تک عالمی بقا کی شرح 60 فیصد ہو جائے۔افغانستان میں ہر سال کینسر کے تقریباً 100 نئے کیسز کی تشخیص ہوتی ہے، لیکن ملک میں ضروری علاج کے لیے طبی ڈھانچہ کی کمی ہے۔