بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پاکستان ذیابیطس کے پھیلاؤ میں سرفہرست

 

اسلام آباد: پاکستان میں ذیابیطس کے عالمی صحت کے بحران نے سنگین رخ اختیار کر لیاکیونکہ ملک 20 سے 79 سال کی عمر کے افراد میں ذیابیطس کے پھیلاؤ کی حیرت انگیز شرح 30.8 فیصد سے دوچار ہے۔

ورلڈ آف سٹیٹسٹکس نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر جو اعدادوشمار شیئر کیے ہیں وہ ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں پاکستان کو ذیابیطس کے پھیلاؤ کے حوالے سے فہرست میں سرفہرست ہے۔ اس حیران کن اعداد و شمار کے مضمرات بہت دور ہیں جو نہ صرف صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بلکہ ملک کے مجموعی سماجی و اقتصادی تانے بانے کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

ذیابیطس سے منسلک صحت کے بڑے خطرات جس کی خصوصیت ہائی بلڈ شوگر لیول ہےان میں دل کی بیماری، فالج، گردے کی خرابی، اور اندھا پن شامل ہیں۔ یہ معلومات صحت کے بگڑتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمہ جہت اقدامات کی اہم ضرورت کی نشاندہی کرتی ہے۔

کویت 24.9 فیصد کے پھیلاؤ کی شرح کے ساتھ پاکستان کی پیروی کرتا ہے جو خطے میں اس مسئلے کی وسیع نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسرے ممالک جیسے مصر، قطر، ملائیشیا اور سعودی عرب بھی ذیابیطس کے پھیلاؤ کی نمایاں شرح کی اطلاع دیتے ہیں جو پورے مشرق وسطی میں مشترکہ تشویش کو اجاگر کرتے ہیں۔

خطرناک ذیابیطس کے پھیلاؤ کی شرح میں کردار ادا کرنے والے عوامل کثیر جہتی ہیں۔ بیہودہ طرز زندگی، ناقص غذائی عادات، جینیاتی رجحان اور ذیابیطس کے انتظام کے بارے میں آگاہی کی کمی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مزید برآں معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اور اسکریننگ تک محدود رسائی مسئلہ کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

ماہرین اس وبا پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ روک تھام کی حکمت عملیوں میں صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے جسمانی سرگرمیوں پر زور دینے اور متوازن غذا کو اپنانے کے لیے وسیع پیمانے پر عوامی بیداری کی مہمات کو شامل کرنا چاہیے۔ باقاعدہ اسکریننگ اور طبی مداخلتوں تک رسائی کے ذریعے جلد پتہ لگانے کی ضرورت بھی اتنی ہی اہم ہے۔

ذیابیطس کے زیادہ پھیلاؤ کی شرح کے مضمرات صرف انفرادی صحت تک ہی محدود نہیں ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے اور وسائل پر بوجھ کافی ہے، جس سے ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تناؤ ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی قوم کے لیے اضافی چیلنجز کا باعث بنتا ہے جو پہلے ہی صحت اور سماجی و اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔

ذیابیطس کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت، صحت کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں، کمیونٹیز اور افراد کے درمیان تعاون پر مشتمل کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کی تربیت، اور سستی ادویات فراہم کرنا ذیابیطس کے موثر انتظام کی جانب ضروری اقدامات ہیں۔

اگرچہ پاکستان کو ذیابیطس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے، بیداری اور فعال کوششوں کی اہمیت کو زیادہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس وبا کو مزید بگڑنے اور ملک کی مجموعی صحت اور بہبود پر منفی اثر ڈالنے سے روکنے کے لیے فوری مداخلت ضروری ہے۔

اعداد و شمار ایک واضح یاد دہانی کے طور پر کام کرتے ہیں کہ ذیابیطس صرف ذاتی صحت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی چیلنج ہے جس کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے۔ احتیاطی تدابیر کو ترجیح دینےصحت کی دیکھ بھال کے وسائل میں سرمایہ کاری کرنے اور ذیابیطس کے انتظام کے بارے میں عوام کو تعلیم دینے کی عجلت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے ہی پاکستان اس بحران پر گامزن ہے ملک کی صحت اور مستقبل کے تحفظ کے لیے تیز رفتار اور فیصلہ کن کارروائی انتہائی اہم ہے۔