برلن(نیوز ڈیسک)جرمنی میں حال ہی میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں ماہ افراطِ زر کی شرح ملک کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد پہلی بار انتہائی تیزی سے بڑھی ہے۔
شماریات سے متعلق جرمن ایجنسی ڈیسٹیٹس نے اپنے ابتدائی اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا ہے کہ گزشتہ برس کے اپریل کے مقابلے میں اس وقت صارفین کے لیے عام اشیا کی قیمتیں 7.4 فیصد زیادہ ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ خاص طور پر یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے توانائی کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
آخری بار تیز ترین مہنگائی تین دہائیوں قبل سابق مغربی جرمنی میں ریکارڈ کی گئی تھی جب جرمنی کے دوبارہ اتحاد سے نو برس قبل 1981ء میں ایران عراق جنگ کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا اور افراطِ زر کی شرح بھی بڑھ گئی تھی۔
جرمنی بھی دیگر یورپی ممالک کی طرح توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے سپلائی بند ہونے کے خطرے کے سبب مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے جمعرات کو خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے روس جرمنی کو بھی گیس کی فراہمی معطل کر دے جیسا اُس نے اپنی کرنسی روبل میں ادائیگی سے انکار پر پولینڈ اور بلغاریہ کے ساتھ کیا ہے۔ لہٰذا جرمنی کو ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیاری کرنا ہوگی۔
سری لنکا اور ہنگری جیسے دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی اشیائے ضرورت کی قلت اور مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ جاپان کے مرکزی بینک نے بھی جمعرات کو رواں برس کے لیے افراطِ زر کی شرح میں ممکنہ اضافے کا اعلان کیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں افریقا میں سماجی بے امنی کا سبب بن سکتی ہیں۔