بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

کیا سابق وزیر اعظم عمران خان ’’اسلامی انقلاب ‘‘کا نعرہ لگا سکتے ہیں ۔۔۔۔؟جی ہاں ایسا ممکن ہے۔۔۔: قاضی سمیع اللہ

ریاست کو’’ ریاست مدینہ‘‘ کے طرز پر ڈھالنے کے دعوے اور نعرے اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں یا نہیں اس بحث سے ہٹ کر اگر بات کوآگے بڑھایا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے بکھرے ہوئے نظریات وخیالات کو اب تک کوئی حتمی ’’عنوان‘‘ نہیں دے سکے ہیں جبکہ وہ ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’شب دعا‘‘ جیسی خالصتاً مذہبی اصطلاحیں استعمال کرچکے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ’’انھیں جو پٹی پڑھادی جاتی ہے وہ اس کی گردان شروع کردیتے ہیں ‘‘۔بلا شبہ پاکستانی سیاست میں’’ مذہبی کارڈ‘‘ کا استعمال کسی بھی قسم کی’’ قیادت‘‘ کو مقبولیت کی بلند ترین سطح پر پہنچا دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں مذہبی کارڈ کی سیاست ’’امریکہ ‘‘ کو بھی لبھاتی ہے ۔سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے ایک جامع ’’بیانیہ ‘‘ تشکیل دینے کے لیے مصروف ِ عمل ہیں اس مقصد کے لیے وہ اب تک متعدد جلسے اور دیگر سیاسی سرگرمی رچا چکے ہیںجس میں وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے نظر آئے ہیں جو کبھی’’ بیرونی سازش‘‘سے شروع ہوکر’’ اسٹیبلشمنٹ ‘‘تک پہنچتے ہیں تو کبھی وہ ’’عالمی سازش اور اندرونی کردار‘‘کا رونا رونا شروع کردتے ہیں ،بظاہر وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے مخالفین کا ذکر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جبکہ ان کا ’’اندازِ بیاں ‘‘کسی بھی امر کو مخفی یا مبہم رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔ بہر کیف سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے خلاف نئی مخلوط حکومت کو ’’ سیاسی مشکلات‘‘ سے دوچار کرنے کے لیے اسلام آباد کی طرف ’’ لانگ مارچ‘‘کا اعلان کرچکے ہیں جس کی حتمی تاریخ کا اعلان ابھی ہونا باقی ہے لیکن اتنا ہے کہ وہ اس لانگ مارچ میں 20لاکھ افراد کا ’’ جمِ غفیر ‘‘لگانے کا دعویٰ کررہے ہیں جبکہ اس کے لیے ان کی جانب سے’’ تبلیغی مہم ‘‘بھی شروع کردی گئی ہے ۔اس ضمن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ’’ مختلف مکاتب فکر کے’’ علماء اکرام ‘‘نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد لانگ مارچ کی حمایت کر دی ہے‘‘ ۔ اس ضمن میں ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ’’ علماء اکرام‘‘ نے پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے پیچھے’’ بیرونی سازش‘‘ کی تحقیقات کے لیے’’ عدالتی کمیشن‘‘ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔اس اخباری خبر میں جن علماء اکرام کے نام ظاہر کیے گئے ہیں ان میں صاحبزادہ عبدالخیر زبیر، محمد اجمل قادری ،ثروت اعجاز قادری، صاحبزادہ حامد رضا، مولانا گل نصیب، ڈاکٹر سبیل اکرام، ناصر شیرازی، مولانا شجاع الملک، ڈاکٹر احسان دانش اور ضیا اللہ شاہ بخاری سمیت دیگر شامل ہیں ۔مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اکرام کی سابق وزیر اعظم عمران خان ، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، سینیٹر اعجاز احمد چوہدری اور سابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان کے درمیان ہونے والی مختلف ملاقاتوں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ان ملاقاتوں میں علماء اکرام کی طرف سے پی ٹی آئی حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اس عمل کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد کی منظوری دی گئی۔اس قرارداد میں کہا گیا کہ’’ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے اور عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق منتخب ایوان کے ذریعے ان اختیارات کا استعمال کریں‘‘۔ جبکہ اسی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’سابق وزیر اعظم عمران خان نے بطور وزیر اعظم اسلام کے تحفظ کے لیے اور دنیا بھر میں اسلامو فوبیاکے خلاف انتھک کام کیا ہے‘‘۔
پی ٹی آئی کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اکرام کے حوالے سے مذکورہ بالا دعوے کی روشنی میں یہ بحث پھر اسی نقطہ پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے بات شروع کی گئی تھی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان خان اپنی سیاست میں ’’مذہبی کارڈ‘‘کے استعمال کو جائز قرار دینے کے لیے نہ صرف علماء اکرام سے ملاقاتیں کررہے ہیں بلکہ اپنی’’ مذہبی عقیدت‘‘کو مستند بنانے کی کوشش بھی کررہے ہیں ۔لیکن اس کوشش میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا ’’سیاسی نوحہ‘‘ایک ’’نئی تحریک ‘‘کو جنم دے سکتا ہے جسے ’’اسلامی انقلاب‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو ’’ حقیقی آزادی‘‘ سے ’’حقیقی مقصد‘‘یعنی ’’ پاکستان کا مطلب کیا‘‘ میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔بہر کیف ایسے میں اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگلے عام انتخابات میں سابقہ حکمران جماعت پی ٹی آئی مذہبی جماعتوں اور کرداروں کے ساتھ مل کر کوئی ’’نیا انتخابی اتحاد‘‘ بنا سکتی ہے جسے کسی حد تک ملک بھر کی’’ خانقاہوں اور پیروں ‘‘کی بھی حمایت حاصل ہوسکتی ہے جو کہ پہلے بھی کسی نہ کسی صورت میں پی ٹی آئی کو حاصل ہے جس میں جنوبی پنجاب سے مخدوم شاہ محمود قریشی اور سندھ سے’’ پیر صاحب پگاڑا‘‘قابل ذکر ہیں ۔ تاہم ایسے کسی بھی سیاسی و انتخابی اتحاد کے لیے ایک منفرد اور پُرکشش نعرے کی ضرورت پیش آئیگی جو یقینا ’’اسلامی انقلاب‘‘کا نعرہ ہوسکتا ہے اور اس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کے بکھرے ہوئے نظریات و خیالات کو ایک حتمی ’’عنوان ‘‘ بھی میسر آسکتا ہے ۔کیا اس بحث کے’’ نتیجہ‘‘ پر کسی قسم کا کوئی شک کیا جاسکتا ہے ،جی ہاں کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے قطعی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔