بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

لاہور کی دو جیلوں میں قیدیوں کی تعداد اور بد عنوانی کی شکایات میں اضافہ، قیدی بدترین حالات میں رہنے پر مجبور

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) لاہور کی ڈسٹرکٹ جیل میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے بڑھ گئی جس کے باعث بد عنوانی کی شکایات میں اضافہ ہونے لگا، جیل حکام کی جا نب سے بدعنوانی کی شکایات کے خاتمے کے لئے انقلابی سکیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق حکام کا دعویٰ ہے کہ لاہور کی آبادی اور جرائم کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ شہر کی دو جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے اور بدعنوانی کی شکایات میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔محکمہ داخلہ پنجاب لاہور کی ان گنجان جیلوں کے قیدیوں کی حالت زار سے بظاہر لاتعلق نظر آتا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کررہا ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے شہر میں صرف دو جیلیں ہیں جو بد عنوانی اور رشوت کی آماج گاہ بن چکی ہے ۔دونوں جیلوں ، ڈسٹرکٹ جیل اور سنٹرل جیل میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے جب کہ یہاں کے قیدیوں کے حالات ابترہیں، خاص طور پر جب جیل حکام نے مبینہ طور پر رشوت کی شرحوں میں اضافہ کر دیا ہے اورمطالبات پورے کرنے والے ‘قیدیوں کو وسیع سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔

صورتحال سے باخبر ایک اہلکار نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں لاہور میں جرائم میں اضافے کی وجہ سے دونوں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں 10 سے 20 فیصد اضافہ ہوا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران قیدیوں اور ان کے رشتہ داروں نے دونوں جیلوں میں بدعنوانی کے خلاف 700 سے زائد شکایات درج کرائی ہیں۔رپورٹ کے مطابق شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ اعلیٰ جیل حکام کو قیدیوں کے حقوق کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔لاہور کی پہلی جیل ڈسٹرکٹ جیل فیروز پور روڈ پر اچھرہ اور مزنگ کے درمیان 32 ایکڑ اراضی پر 1930 میں تعمیر کی گئی تھی، ایک اہلکار کے مطابق رواں سال جنوری میں ڈسٹرکٹ جیل کے قیدیوں کی تعداد 2895 تک پہنچ گئی جو جیل میں قیدیوں کی گنجائش سے 80 فیصد سے زیادہ ہے اور یہ قیدی انتہائی غیر صحت مندانہ حالات میں رہنے پر مجبورہیں ۔دوسری جیل ، سنٹرل جیل ہے جو ‘کوٹ لکھپت جیل کے نام سے معروف ہے ۔یہ جیل 1965 میں تعمیر کی گئی جس میں تقریبا4ہزار قیدی موجود ہیں جو اس کی اصل گنجائش سے 1ہزار 53قیدیوں سے چار گنا زیادہ ہے ۔ 1965 سے اب تک شہر میں کوئی نئی جیل نہیں بنائی گئی۔

مذکورہ اہلکار کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے متعلقہ حکام کے سامنے خاص طور سے پنجاب کی جیلوں میں اصل گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کورکھنے کامعاملہ اٹھایا ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔جیل حکام قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو مطلوبہ سہولیات حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اہلکار نے الزام لگایا کہ ان جیلوں کا عملہ قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقاتوں کے لیے نذرانے وصول کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علیحدہ کمرے میں ملاقات کے نرخ ‘معمول کی ملاقات کے لیے وصول کیے جانے والے نرخوں سیکہیں زیادہ ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ جیل حکام موبائل فون کالز کرنے کے لیے الگ سے رشوت طلب کرتے ہیں۔رشوت کی شرح قیدیوں کے جرم اور ان کے معیار زندگیکے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ جیل کا عملہ اہل خانہ کی طرف سے قیدیوں کو بھیجی جانے والی رقم میں سے ایک مخصوص شرع کے حساب سے کٹوتی کرتا ہے اور یہی صورتحال دیگر سامان یا کھانوں کے حوالے سے بھی ہے۔مذکورہ اہلکار کامزید کہنا ہے کہ حکام دوسرے اضلاع کی مخصوص جیلوں میں بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں ۔

محکمہ داخلہ کے ایک اندرونی ذرائع نے گزشتہ سال مئی میں پنجاب کی ساہیوال سینٹرل جیل میں 80 سے 90 لاکھ روپے ماہانہ بد عنوانی کا انکشاف کیا تھا۔یہ رپورٹ محکمہ داخلہ کے ایک نامعلوم ذریعے نے تیار کی تھی جس نے ذاتی طور پر ملاقاتی کے بھیس میں ساہیوال جیل کا دورہ کیا۔ تاہم لاہور کی دو جیلوں کے اہلکار ایسی کارروائی سے بچ نکلے کیونکہ وہ دیگر اضلاع کے جیل حکام کی نسبت زیادہ طاقتور اور بااثر بتائے جاتے ہیں۔محکمہ جیل کے اعلی حکام اپنے محکمے کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جیلوں میں بدعنوانی کی شکایات کے خاتمے کے لیے ایک انقلابی سکیم متعارف کرا رہے ہیں۔حکام نے دعوی کیا کہ ہم ایکبڑی اسکیم متعارف کرا رہے ہیں جس کے تحت جیل کے گیٹ پر قیدیوں کے رشتہ داروں سے پیسے لینے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ تمام جیلوں کی مکمل اسکریننگ کی جائے گی اور کسی قیدی کو پیسے رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر جیل کی کینٹین میں ایک ڈلیوری کاونٹر قائم کیا جا رہا ہے جہاں قیدیوں کے رشتہ دار بینک کھاتوں کے ذریعے رقوم کی ادائیگی کریں گے۔اسی طرح کے دیگر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں اور کاہنہ کے قریب جیل کمپلیکس کی تعمیر کی تجویز چھ سال قبل پیش کی گئی تھی جس کے تحت خواتین، کم عمر اور بالغ قیدیوں کے لیے چار آزاد جیلیں تعمیر کی جائیں گی۔اس سلسلے میںسمری وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس زیر التوا ہے۔