بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

نتائج تسلیم کیے جائیں تو انتخابات ہی حل ہیں۔۔تحریر: قاضی سمیع اللہ

پاکستانی سیاست آج جس ڈگر پر ہے اسے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہندوستانی فلسفی’’ کوتلیہ چانکیہ‘‘ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ارتھ شاستر‘‘ہی نہیں بلکہ اس کے ہمعصر یونانی فلسفی’’ ارسطو‘‘ کے’’ جمہوریت ‘‘ کے لیے تجویز کردہ9اصول اورسیاست کے حوالے اس کے 30قواعد بھی کم پڑجائیں لیکن 16ویں صدی کے اطالوی سیاسی مفکر’’ میکاؤلی ‘‘وہ واحد فلسفی ہیں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو کسی حد تک سمجھاسکتے ہیں کیونکہ پاکستانی سیاست پر’’ میکائولی ‘‘کے سیاسی نظریات کا رنگ غالب ہے ۔اس سے پہلے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر کچھ اظہار خیال کیا جائے ہم پہلے اطالوی سیاسی مفکر’’ میکاؤلی ‘‘کے چیدہ چیدہ سیاسی نظریات پر روشمنی ڈالتے چلیں تاکہ پاکستانی سیاست کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کیا جاسکے ۔میکائو لی جو اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’دی پرنس‘‘ سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے ،میکائولی اپنے سیاسی نظریات میں انسانی عقل اور اختیار کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں لیکن وہ سیاسی اہداف کے حصول کے لیے ’’ظالمانہ اور عدم احساسات‘‘ کا راستہ اختیار کرنے کو بھی جائز تصور کرتا ہے ۔ یعنی سیاست اصل مقاصد، اہداف اور مفادات پر مبنی ہونی چاہیے ، سیاست کو مثالیت کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔میکائولی سیاست میں’’ حقیقت پسندی ‘‘ کو اہمیت دیتے ہیں لیکن عوامی سطح پر اسے’’ موقع پرستی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یعنی بسا اوقات حقیقت پسندی کو موقع پرستی کے اور موقع پرستی کو حقیقت پسندی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے ،لیکن ایسے میں فِرق باطلہ ممکن نہیں ہوتا ۔ایسی ہی سیاسی فکرکے بطن سے ’’مفاداتی سیاست ‘‘ نے جنم لیا ہے ۔یعنی یہ کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔جہاں تک میکائولی کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ کی بات ہے تو اس مختصر سی کتاب کا نچوڑ یہی ہے کہ ’’لوگ اپنے بارے معاملات خود طے کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن انھیں خوف یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے حاکم ان کے معاملات نہ طے کرنا شروع کر دیں، اس لیے ایک عقلمند حکمران کو اس بات پر ب یقین ہونا چاہیے کہ وہ خود کیا کچھ کنٹرول کر سکتا ہے ، نہ کہ دوسرے کیا کچھ کنٹرول کر سکتے ہیں‘‘۔
جیسا کہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے بالا سطور میں کہا گیا کہ اس پر’’ میکائولی ‘‘کے سیاسی نظریات کا رنگ غالب ہے ، بلاشبہ ایسا ہے جہاں ہر سیاست دان یا سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے’’ مفادات‘‘ کی سیاست کررہی ہیں جبکہ ان کی سیاست میں’’ ریاستی و قومی مفادات ‘‘ کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست مسلسل ’’عدم استحکام ‘‘ کا شکار رہتی ہے کیونکہ ایسی سیاست میں ’’اعتماد ‘‘ کا فقدان پایا جاتا ہے جو کسی ایک نقطہ پر متفق ہونے نہیں دیتا ۔ یعنی پاکستانی موجودہ سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے اس میں ’’اتفاق رائے ‘‘عنصر غائب ہے ۔لہذا جب تک پاکستانی سیاست میں اتفاق رائے کو اہمیت نہیں دی جائے گی اس وقت ملکی سیاست کا حلیہ یوں ہی بگڑتا رہے گا ۔جیسا کہ ان دنوں ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘ اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بحث جاری ہے اور یہ بحث اس شدت کے ساتھ جاری ہے جیسے پاکستان کے سماجی ،سیاسی ا ور معاشی مسائل کاحل اسی ایک مسئلہ میں اٹکا ہوا ہے ۔ بلاشبہ پاکستانی سماج میں’’ شفاف انتخابات ‘‘ کا انعقادایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ہر دور میں موجود رہا ہے اور آج بھی موجود ہے ۔ انتخابات میں پری پول دھاندلی سے لیکر ووٹنگ پولنگ اسٹیشن تک کی دھاندلی کا تذکرہ جو پہلے عام ہوا کرتا تھا، اس میں مزید جدت یہ آگئی ہے کہ اب ’’رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم‘‘ ( آر ٹی ایس )بھی بیٹھ جاتا ہے ۔کہا
جارہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کی سنگینی کو ختم کرنے لیے فوری انتخابات ناگزیر ہیں ۔ ایک لمحے کے لیے یہ مان لیا جائے کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ فوری انتخابات میں مضمر ہے اور انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو پھر ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام سیاسی جماعتیں’’انتخابی نتائج ‘‘ کو تسلیم کرنے کے لیے تیا رہونگی جبکہ روایت تو یہی رہی ہے کہ انتخابات میں شکست سے دوچار سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دیکر اس کے نتائج تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتی ہیں ۔ جیسا کہ 2013کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کو تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور ان کی جانب سے انتخابی نتائج کو’’ 35پنکچر‘‘ کا نام دیکرکو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیاتھا ۔ اسی طرح 2018کے عام انتخابات کے نتائج میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملی لیکن اسے پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے شرف قبولیت نہیں بخشی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ پونے چار سال بعد پی ٹی آئی کے چیئر مین کو ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا ۔ بلاشبہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کی جارحانہ سیاست کی وجہ سے ملکی سیاست کو ان دنوںنت نئے مسائل کا سامنا ہے جس میں ’’تصادم ‘‘ کے عنصر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بہر کیف سابق وزیر اعظم عمران خان ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں اور ایسی ہی خواہش مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز کی طرف سے بھی سامنے آئی ہے ۔تو پھر ایسے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی )سے اس امر کی ضمانت لی جائے کہ وہ اگلے انتخابات کا جو بھی نتیجہ ہوگا اسے تسلیم کیا جائے گا اور ملک کو آگے بڑھنے دیا جائے گا ،لیکن اس لیے بھی کسی ’’ثالث‘‘ کی ضرورت پیش آئے گی ،اب یہ ثالث کون ہوسکتا ہے جو بعد میں ایک ضامن بھی ہوگا ۔ جیسا کہ یونانی فلسفی’’ ارسطو‘‘ نے کہا تھا کہ ’’ اگر ہمارا مقصد’’ اچھا ‘‘ ہے ، تو ہمیں ہر صورت ہر ایک کا حصہ بنانا ہوگا ‘‘۔لیکن پاکستانی سیاست کا المیہ تو یہ ہے کہ اس پر’’ میکائولی ‘‘کے سیاسی نظریات غالب ہیں جو ’’ظالمانہ اور عدم احساسات‘‘کے گرد گھومتی ہے ۔