بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ میں مداخلت کے تاثر کی پرزور نفی کرتا ہوں، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے کہا ہے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ میں مداخلت کا تاثر دیا جارہا ہے جس کی میں پر زور نفی کرتا ہوں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ کمیونی کیشن کی، ایک خط لکھا، اس خط کی روشنی میں یا اس خط کے مندرجات رپورٹ کچھ اس طرح سے ہوئے جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیسے کوئی مداخلت ہو رہی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ میں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اور ان جج صاحب کو ایک مخصوص کیس کے حوالے سے کوئی پیغام اس طرح کا گیا یا انہوں نے سمجھا یا کسی ایسے شخص کی طرف سے گیا جو نہیں جانا چاہیے، تو میں نے سوچا کہ میں اس چیز کی وضاحت ضرور کردوں‘۔
منصور اعوان نے کہا کہ اس معاملے کا پہلا پہلو یہ ہے کہ خط کے مندرجات میں جج صاحب نے خود فرمایا ہے کہ موصول ہونے والا پیغام کسی بھی طرح سے انصاف کے حصول میں مداخلت نہیں تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج صاحب کا ریفرنس اس خط میں اس سوشل میڈیا مہم کی طرف ہی تھا، بہرحال کیونکہ ایک بات ہے جو میڈیا پر نشر ہوچکی ہے، اس لیے میں بطور اثارنی جنرل، اس ملک کے بحیثیت پرنسپل لا افسر میں نے ضروری سمجھا کہ اس چیز کی وضاحت ابھی کردی جائے جو کہ ابھی ضروری بھی تھا کہ ایک ایسا تاثر بنتا جا رہا ہے کہ جوڈیشری یا ایگزیکٹو کے بیچ میں کوئی ایسی خرابی یا ایسے تعلقات خراب ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ بات آگے بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پہلو سے یہ بات ضروری ہے کہ کچھ چیزوں کی وضاحت ضروری ہے، ریاست کے کچھ حساس معاملات ہوتے ہیں، جس طرح کی سیکورٹی صورتحال میں پاکستان ہے جو آج سے نہیں بلکہ کم از کم پچھلے 45 سال سے ہے، وہاں پر کچھ ایسے معاملات ضرور ہوتے ہیں جہاں پر ریاست کے مختلف اداروں کی آپس میں ایک کمیونی کیشن ضروری ہوتی ہے۔
منصور اعوان نے کہا کہ اس کمیونی کیشن کے حوالے سے ہمیشہ سے اٹارنی جنرل آفس یا صوبوں کا ایڈووکیٹ جنرل آفس ہی کمیونی کیٹ کرتا ہے، اس کیس کے حوالے سے بھی یہ درخواست کی گئی تھی کہ سرویلنس کے حوالے سے جو بھی بریفنگ ہو، وہ ان کیمرا کردی جائے تاکہ وہ پبلک ڈومین میں نہ جائے کہ ہماری ایجنسیز کی کیا صلاحیتیں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک جو ایسے ممالک سے گھرا ہوا ہے جہاں بڑی طاقتیں بھی ہیں اور ان سب کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات بھی نہیں ہیں، اس حوالے سے ضروری تھا کہ ایسی معلومات پبلک ڈومین میں نہ جائے، تو وہ ایک کمیونی کیشن ضرور ہوئی لیکن اس میں بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس سے ایسا تاثر گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ پر کردیا جائے، ایسا نہیں تھا۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس حد تک گزارش ضرور ہوتی ہے، سیکیورٹی معاملات میں بلکل ہوتی ہے، یہ جو خدشات ہوتے ہیں ضروری بتائے جاتے ہیں، اس میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل آفس ہی ایسی درخواست جو قانونی ہو، اس پر کمیونی کیٹ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ نہ کوئی حکومت اور نہ کوئی ریاستی ادارہ، کسی بھی طرح سے عدلیہ کے کام یا اس کے آئینی فرائض میں مداخلت نہ کرسکتا ہے، نہ کرتا ہے، میں اس تاثر کی پر زور طریقے سے نفی کرتا ہوں۔
منصور اعوان نے کہا کہ میڈیا سے بھی میری درخواست ہوگی کہ وہ اس خط کے متن پر غور فرمالیں کہ انہوں نے کس چیز کو کہا ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی میسج کہیں سے بھی انہیں ملا ہو، اس چیز پر میں اور وضاحت کردوں کہ میری معلومات کے مطابق کسی بھی سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کے افسر نے کوئی کسی قسم کا کوئی براہ راست نہ رابطہ کیا ہے، نہ وہ کرتے ہیں، نہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ رابطہ اثارنی جنرل آفس کی جانب سے کیا گیا، وہ اس حد تک ہوا کہ حساس قسم کی جو معلومات ہیں، وہ ان کیمرا کی جائے، وہ براہ راست ان کے گوشگزار کی جائے اور یہاں تک ہی بس درخواست تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی رپورٹنگ اس کے ٹھیک سیاق و سباق کے مطابق ہونی چاہیے۔