اسلا م آباد:سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی ہوگئی ہے جس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں، عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا۔
کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا تھا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ لائیو اسٹریمنگ پر تھوڑی دیر تک بتاتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے براہ راست نشریات کی حمایت کردی تھی، انہوں نے کہا کہ مقدمہ پہلے لائیو دیکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے۔
اس پر خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں۔
بعد ازاں بینچ کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جائے گی یا نہیں پر مشاورت کرنے کے لیے چلا گیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس لائیو نہ دکھانے کا فیصلہ سنادیا، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشرکرنے کی درخواست مسترد کردی، فیصلہ 4 -1 سے کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاخیر کے لیے معذرت چاہتے ہیں، ہم کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کرنا چاہتے تھے، جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، ہم نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ سماعت براہ راست نہیں دکھائی جائے گی۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخت نہیں کرسکتی۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں اپنی بات کرتا ہوں، میں میڈیا سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں، وزیر اعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ہ ججز کے لیے استعمال نہیں کئے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائیں گئیں؟ قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سےکم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا ذکر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 5، 5 لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتے رہے، پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے، سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کر کے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت خیبرپختونخوااپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کرسکتی ہے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے کی صوبائی حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں احتساب ایکٹ اس لئے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہورہا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وزرا پریس کانفرنسز کرکے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی تو آسان دلیل ہے کہ اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلہ کردیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے، پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لیےقانون سازی کرسکتی ہے، اکثریتی فیصلے میں 1 کروڑ روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کا کہا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے؟ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟
وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میری رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے؟ ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں؟ کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے، ججز آئینی عہدے ہیں۔
بعد ازاں عمران خان اور چیف جسٹس فائز عیسی کے درمیان پہلا باضابطہ مکالمہ ہوا۔
میں قید تنہائی میں ہوں، عمران خان
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ میں آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں، مجھے تیاری کے لیے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلا سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے، میں قید تنہائی میں ہوں۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکہ ڈالاگیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ اپ کے پاس موجو د ہیں، چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ عمران خان نے بتایا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ حامد خان ایک سینیئر وکیل ہیں انہوں نے ملک سے باہر جانا تھا تو ان کو ان کی مرضی کی ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے۔
بعد ازاں عمران خان نے بتایا کہ چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، آپ ان کو آرڈر کریں کہ مجھے قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے دیں، وہ مجھے قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے، مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے، میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں اور نہ ہی لائبریری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہوگی، اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لیں گے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا۔
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے تیاری کے لیے، خواجہ حارث اور ایک دو اور وکلا سے ملنا چاہتا ہوں، یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اڈیالہ میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں، پہلے بھی وکلا سے ملنا چاہتا تھا لیکن ممکن نہیں ہوا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان سے خواجہ حارث جب ملنا چاہیں مل سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے، 50 لوگ ساتھ لے کر نہ جائیں ایک دو وکیل جب چاہیں عمران خان سے مل سکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کے لیے 3 گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔
بعد ازاں عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تاریخ کا اعلان شیڈیول دیکھ کر کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں حاضر رہے۔14 مئی کو سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔