بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ن لیگ اور PP میں تنازع کی اصل وجہ کیا ہے؟

اسلام آباد(ویب ڈیسک)جس وقت عمران خان حکمران جماعت نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں اسی وقت مریم نواز کا طرز حکمرانی بلاول بھٹو کی پارٹی کیلئے پریشان کن ہے۔

بجٹ کے حوالے سے کچھ معاملات ایسے ہیں جو پیپلز پارٹی کیلئے باعث پریشانی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو سنگین تشویش اور شکایت اس بات پر ہے کہ پنجاب میں اسے سیاسی جگہ نہیں مل رہی حالانکہ جس وقت پیپلز پارٹی نے نون لیگ کی مدد کیلئے حکومت بنانے میں اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق، پیپلز پارٹی پنجاب کی بیوروکریسی بالخصوص ان اضلاع میں تقرریوں میں اپنا حصہ چاہتی ہے جہاں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی موجودگی ہے۔ تاہم مریم نواز سیاستدانوں کی سفارشات پر بیوروکریسی میں تبدیلیاں کرنے کو تیار نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی سے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سول انتظامیہ اور پولیس میں سیاسی مداخلت ناقابل قبول ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے سے نہ صرف نون لیگ کے کئی ارکان صوبائی اسمبلی بے چین ہیں بلکہ یہ صورتحال پنجاب میں موجود پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔

یہ واضح نہیں کہ آیا مریم نواز پنجاب سے پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قوم اسمبلی کو اپنے اپنے علاقوں میں من پسند افسران رکھنے کی اجازت دیں گی۔ ایک نون لیگی ذریعے کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وزیراعلیٰ ایسی کوئی اجازت دیں گی۔

بدھ کو پیش کردہ بجٹ پر نون لیگ کیخلاف پیپلز پارٹی کے تحفظات پر اگرچہ میڈیا متوجہ ہوا ہے لیکن یہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں اور اس سے شہباز حکومت کو کوئی حقیقی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے معاملے سمیت دونوں فریقوں کے درمیان چاہے جتنے بھی اختلافات ہوں، پیپلز پارٹی عمران خان کے طرز سیاست کے باعث شہباز حکومت گرنے نہیں دے گی۔

کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر مسلسل تنقید دراصل شہباز حکومت کی طاقت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ صورتحال کچھ معاملات پر اختلافات کے باوجود نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو متحد رکھے ہوئے ہے۔ کچھ طاقتور اسٹیک ہولڈرز کیلئے خیال کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کے کمزور ہونے یا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی بھی شدید رسہ کشی کا مطلب عمران خان اور پی ٹی آئی کی مضبوطی ہوگا۔

کہا جاتا ہے کہ کچھ پوشیدہ قوتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان علیحدگی ہونے نہیں دیں گی۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے والی پیپلز پارٹی شہباز شریف کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئی۔ تاہم پیپلز پارٹی کو صدارت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور دو گورنرز کے عہدے مل گئے۔ پیپلز پارٹی نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ حکومت کو گرنے نہیں دے گی۔
(انصار عباسی)