بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عدلیہ میں مداخلت کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

راولپنڈی(ممتازنیوز)چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد نے کہا ہے کہ مداخلت کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوا، دو تین دن پہلے ایک جج کی شکایت میرے سامنے آئی اور انہوں نے سارے واقعات بینا کیے جو ان پر گزرے۔

جوڈیشل کمپلیکس میں خطاب کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ ہم نے فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق کرنا ہوتا ہے، جلد انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے، فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ گواہان کا پیشی پر نہ آنا ہے، مسائل کی نشاندہی کے بعد حل نکالنا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پہلے بھی کہا عدالتی نظام کمزور شخص کے لیے بنایا گیا ہے، کئی مقدمات میں فیصلے ہونے تک 2 نسلیں گزرجاتی ہیں، پورے پنجاب میں وڈیولنک کے ذریعےکارروائی کی منظوری دی، اس فیصلے سے لوگوں کو جلد اور سستا انصاف مہیا کرنے میں مدد ملے گی۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے مزید کہا کہ ساتھی ججز کے ساتھ غور کیا کہ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے مزید کیا اقدامات کرسکتے ہیں، ہم نے دیگر ممالک کے نظام انصاف کا بھی جائزہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشری بغیر کسی ڈر اور خوف کے فرائض انجام دے رہی ہے، مداخلت کا آغاز مولوی تمیزالدین کیس سے ہوا، کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونا، کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا، جوڈیشری میں مداخلت کا جلد اختتام ہوگا، 2،3 دن پہلے ایک جج کی شکایت میرے پاس آئی، سارے واقعات بتائے، مداخلت کرنے والے اداروں کا نام لینا مناسب نہیں، عدلیہ میں مداخلت میں مختلف ادارے ملوث ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ میٹنگ بلائی، اس میں فیصلہ کیا کہ ہڑتال کلچر برداشت ہوگا، 13 مئ 2024 کو پنجاب کی عدلیہ کو سرکلر جاری کیا، بتایا کہ ہڑتال کی کسی کال کو نہیں مانیں گے، ہڑتال کی کال ہو یا نہیں کام قانون کے مطابق کریں۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کے تمام وکلاء نے ہڑتال اور تالا بندی کے کلچر کو دفن کر دیا، ملک کے 90% فیصد وکلا اچھے لوگ ہیں، صوبہ پنجاب میں 2 لاکھ سے زائد کیس دائر ہوئے اور فیصلہ تین لاکھ سے زائد کیسسز کا فیصلہ ہوا، اس سے زہر التواء مقدمات میں واضح کمی ہوئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وکلاء کا یہ کام نہیں کہ عدالت کو تالا لگائیں، کچھ سیاسی عناصر ہوتے ہیں ان سے درخواست ہے، آپ لوگ وکالت چھوڑ دیں، ہمیں دیں ہم آپ کو بھرتیاں کریں گے، شام کو تالا لگا لیجیے گا۔

چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ ملک شہزاداحمد خان نے کہاکہ ہمارے ملک میں اے ڈی آرسسٹم پرتوجہ نہیں دی گئی ،اے ڈی آر عدالتوں کے ذریعے دیگرممالک میں دیوانی مقدمات میں پیسے بچائے جاتے ہیں،مقدمات کے حل کے لیے پارٹیز کوقائل کریں کہ اے ڈی آرسسٹم کی طرف آئیں ،راولپنڈی بار کاکردار اوراسکی تاریخ درخشاں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ پورے ملک کاہرضلع اورہرتحصیل ہمارےلیے قابل احترام ہے،کمی کوتاہیاں ہمیشہ رہتی ہیں مکمل ذات صرف اللہ کی ہے۔گزارش کرتاہوں ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکناہوگا،چند کالی بھیڑیں ہرمعاشرے میں ہوتی ہیں اس پربات نہیں کرتاکچھ شکایات یہ بھی آتی تھیں کہ جج صاحبان عدالتوں میں نہیں بیٹھتے،ہم نے لاہور ہائی کورٹ کی ماتحت عدالتوں کے کیمرے فعال کیے،ماتحت ججز کے آنے جانے اورکام سے متعلق بھی مانیٹرنگ سسٹم بنایاہے۔