بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ حکومت کیلئے اہم 

اسلام آباد(طارق محمودسمیر)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحادکونسل کی درخواست پر محفوظ کیاگیافیصلہ آج جمعہ کو سنایاجائے گا،یہ فیصلہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں بہت اہمیت اختیارکرچکاہے اور اس کے اثرات ملک کے سیاسی مستقبل اور آئینی معاملات پر بھی پڑسکتے ہیں،فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ دوپہر بارہ بجے سنائے گااس سے پہلے یہ کہاگیاتھا فیصلہ 13 رکنی فل کورٹ کے بجائے تین رکنی ریگولربنچ کورٹ نمبرایک میں سنائے گا تاہم بعدازاں نئی کاز لسٹ جاری کی گئی ،اس حوالیسے فی الحال کوئی حتمی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی کہ کیافیصلہ آئے گا؟بعض قانونی ماہرین کی رائے اس حوالے سے تقسیم ہیکہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل یاتحریک انصاف کودی جاسکتی ہیں یانہیں ،زیادہ ترقانونی ماہرین یہ کہہ رہے ہیںکہ ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلہ آجائے کہ یہ نشستیں خالی رکھی جائیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو نہ دی جائیں اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا بھی کہاجاسکتاہے،جب کہ ن لیگ کے قریب سمجھے جانے والے ماہرین یہ دعوے کررہے ہیں کہ یہ نشستیں کسی صورت سنی اتحاد کونسل کو نہیں دی جاسکتیں اور الیکشن کمیشن اور پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ درست تھا،سیاسی حلقوں کے مطابق اگر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقراررکھاجاتاہے تو اس صورت میں حکمران اتحادکو ایوان میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی اور آئینی ترامیم کرنے میں آسانی ہوگی اگر یہ فیصلہ تحریک انصاف یاسنی اتحادکونسل کے حق میں جاتاہے تو اس صورت میں مسلم لیگ(ن)اور اس کی اتحادی جماعتوں کو سیاسی طور پر بڑا دھچکاپہنچے گااور ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوگی گوکہ یہ نشستیں سنی اتحادکونسل کوملنے کی صورت میں حکومت گرنے کا فوری طور پر خطرہ نہیں ہوگامگرپیپلزپارٹی جس اندازمیں بعض ایشوز پر ن لیگ سے اختلاف کرتی ہے تو مستقبل میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے قریب بھی آسکتی ہیں ،اگر یہ فیصلہ آتا ہے کہ یہ نشستیں خالی رکھی جائیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو نہیں دی جاسکتیں کیونکہ سنی اتحادکونسل نے آئین وقانون کے تحت بروقت مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کرائی ایسی صورت میں بھی تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا ،اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اسلام آبادکے تین حلقوں میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے ٹریبونل کے جج جسٹس طارق جہانگیرکو ان حلقوں کاباقاعدہ ٹرائل آگے بڑھانے سے روک دیاہے اور بائیس جولائی تک سماعت ملتوی کرتیہوئے اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیاہے تاہم چیف جسٹس یہ بھی کہاہے کہ ٹریبونل ابتدائی معاملات سے متعلق کارروائی آگے بڑھاسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹریبونل کوئی حتمی فیصلہ نہیں دے سکتامگر ضروری ریکارڈ منگوا سکتا ہے،جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف حالیہ دنوںمیں سوشل میڈیاپر ان کی ڈگری کو جوازبناکرایک مہم بھی چلائی گئی جس کا اسلام آبادہائی کورٹ نوٹس لے چکی ہے جسٹس طارق جہانگیری پر ن لیگ کے کامیاب قراردیئے گئے ارکان عدم اعتماد کرچکے ہیں جب کہ حکومت نے صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ایک ترمیم بھی کردی ہے اور یہ قانون قومی اسمبلی ،سینیٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کے دستخطوں سے نافذ بھی ہوچکاہے اور اب الیکشن کمیشن کو یہ مکمل طور پر قانون اختیارحاصل ہوچکاہے کہ وہ ریٹائرڈ ججز کوٹریبونل کا سربراہ مقررکرسکتاہے، چیف جسٹس کا حکم ن لیگ کے لئے عارضی ریلیف قراردیاجاسکتا ہے تاہم حتمی فیصلہ بائیس جولائی کے بعد ہی متوقع ہے۔