اسلام آباد(ویب ڈیسک)ملک کی معاشی پریشانیوں کے باوجود شدید بے حسی اور مردہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) نے عالمی بینک کی جانب سے دیے گئے قرضے کی رقم سے اپنے ملازمین کو کروڑوں روپے بطور اعزازیہ دے کر پست حالی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
پی پی آر اے اس وقت وزیر اعظم آفس اور کابینہ ڈویژن کی توجہ کا مرکز ہے جس نے نہ صرف مبینہ طور پر ورلڈ بینک کے قرض کا اپنے ہی ملازمین کو خوش کرنے کیلئے غلط استعمال کیا بلکہ ادارے کے حکام کو فراڈ، ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جعلی دستاویزات، بلیک میلنگ، خریداری کے معاملات میں بدعنوانی وغیرہ کے سنگین الزامات کا سامنا ہے جس سے عوام کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ تاہم ان الزامات کے حوالے سے تاحال کوئی تفتیش نہیں ہو سکی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ پی پی آر اے میں عہدیداروں کی دو گروپ ہیں، ایک جنہیں اعزازیہ ملا، دوسرے وہ جنہوں نے اعزازیہ وصول نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں گروپوں کے درمیان یہ لڑائی اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرنے کی بازگشت وزیر اعظم آفس تک جا پہنچی ہے۔
آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی آر اے سے متعلق معاملات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ضروری ہے ہے کیونکہ وزیراعظم آفس اور کابینہ ڈویژن کی دستاویزات میں الزاماعت کی نوعیت دیکھ کر انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کہا جاتا ہے کہ پی پی آر اے کے درجنوں ملازمین کو ای پروکیورمنٹ پروجیکٹ (EPADS) کیلئے ورلڈ بینک کے قرض میں سے تین سال کیلئے اعزازیہ دیا گیا، جو ایک سال میں چار تنخواہوں کے مساوی ہے۔
پی پی آر اے حکام کو اعزازیہ ملنے کے حوالے سے کیبنٹ سیکرٹری کامران علی افضل نے 7 جون 2024 کو پی پی آر اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے نوٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی پی آر اے کے ملازمین بشمول سابق ایم ڈیز کو ورلڈ بینک کے ای پی اے ڈی ایس پروجیکٹ کے قرضہ فنڈز سے اعزازیے دیے جا رہے ہیں۔
کابینہ سکریٹری نے اپنے خط میں مزید کہا کہ بظاہر، اعزازیہ صرف ای پی اے ڈی ایس پروجیکٹ کے تحت بھرتی کیے گئے ملازمین کیلئے جائز تھا لیکن پی پی آر اے انتظامیہ نے ادارے کے ملازمین کو اس پروجیکٹ میں شامل کرکے انہیں اضافی ذمہ داریاں دیں تاکہ انہیں اعزازیہ دینے کا بہانہ بن سکے۔
انہوں نے کہا کہ جو بات اس عمل کو مزید قبیح اور بدتر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ سابق مینیجنگ ڈائریکٹرز نے اپنے سہ ماہی اعزازیے کی خود ہی منظوری دے رہے ہیں اور یہ بات دفتر میں موجود ریکارڈ سے ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام کیلئے پی پی آر اے بورڈ سے اجازت لی گئی اور نہ بورڈ کو آگاہ کیا گیا۔
کابینہ سیکریٹری نے خط میں لکھا ہے، ’’لہٰذا، میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ براہِ کرم اس معاملے پر فوراً غور کریں اور غیر مجاز انداز سے دیے گئے اعزازیے کی واپسی (ریکوری) جیسے معاملات سمیت تمام امور پر پی پی آر اے بورڈ سے رہنمائی لیں۔‘‘
دریں اثناء وزیر اعظم آفس کو بھی پی پی آر کیخلاف متعدد شکایات موصول ہوئیں اور ضروری کارروائی کیلئے معاملہ کیبنٹ ڈویژن کو بھجوا دیا گیا ہے۔ 25 جولائی کو، کابینہ ڈویژن نے پی پی آر اے کے کچھ افسران کیخلاف کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال، جانبداری اور اقربا پروری کے الزامات سے متعلق وزیر اعظم آفس کی تشویش سے آگاہ کرنے کیلئے دوبارہ پی پی آر اے سے رابطہ کیا۔
کابینہ ڈویژن کے خط میں ان الزامات کا خلاصہ اس طرح کیا گیا ہے: ۱) پی پی آر اے کی شکایات کے ازالے کی کمیٹی (GRC) تمام غیر قانونی خریداری کے معاملات کا فیصلہ ٹھیکیداروں کے حق میں کر رہی ہے جس سے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ کیسز زیادہ تر پاک پی ڈبلیو ڈی، این ایچ اے، پاور اینڈ انرجی سیکٹر، اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن سے متعلق ہیں۔ ۲) پی پی آر اے کے افسران اور اہلکار مالی اور اخلاقی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ ۳) وہ دھوکہ دہی، ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جعلی دستاویزات، بلیک میلنگ، دہشت گردانہ سرگرمیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، مجرمانہ اور بے ایمان ذہنیت والے ہیں اور زیادہ تر اخلاقی اور انتظامی پستی میں ملوث ہیں۔ ۴) متعدد شکایات میں پی پی آر اے کے جن افسران کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سب سے نمایاں افسران یہ ہیں: (کابینہ ڈویژن کے خط میں 10 نام ہیں جو یہ اخبار شائع نہیں کر رہا) ۵) پی پی آر اے نے عالمی بینک کے قرض کی رقم (ای پی اے ڈی ایس) کو اعزازیے دینے کیلئے بیحد غلط استعمال کیا ہے۔
کابینہ ڈویژن نے ایم ڈی پی پی آر اے سے کہا ہے کہ وہ مندرجہ بالا معاملات کو پی پی آر اے کے بورڈ کے روبرو غور و خوض اور ہدایات کیلئے پیش کریں اور بورڈ کی کارروائی کے نتائج سے کابینہ ڈویژن کو آگاہ کریں تاکہ رپورٹ وزیر اعظم آفس کے ساتھ شیئر کی جائے۔
انصار عباسی