اسلام آباد(طارق محمود سمیر)سپریم کورٹ نے پی ڈی ایم دور میںکی گئی نیب قانون میں ترامیم کو بحال کردیا ہے اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ترامیم کوکالعدم قرار دینے کا فیصلہ ختم کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون سازی کے اختیارکو ایک مرتبہ پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز نے تسلیم کیا ہے ، ان نیب ترامیم کا اس وقت سب سے زیادہ فائدہ سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو پہنچے گا جبکہ صدر آصف زرداری ، وزیراعظم شہبازشریف ، ن لیگ کے صدر نوازشریف، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی ، ن لیگ کے رہنما حمزہ شہباز سمیت دیگر رہنمائوںکیخلاف بہت سے نیب ریفرنسز ختم ہوجائیںگے ، عمران خان کے دور حکومت میں نیب قانون میں اسی نوعیت کی بہت سی ترامیم کی گئی تھیں اور یہ ترامیم قانون سازی کے ذریعے کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئیں تاہم اس دوران تحریک عدم اعتماد سے وہ اقتدار سے محروم ہوگئے اور شہبازشریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی جس میں نیب قانون میں ترامیم کی گئیں جنہیں عمران خان نے این آر او قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ اس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا اور پرویز مشرف دور کے قانون کو بحال کردیا تاہم دوبارہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد نیب قانون میںکئی ترامیم کی گئیں جن میں بالخصوص ریمانڈ کی مدت 14روز سے بڑھا کر 40دن کردی گئی ، بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ آج کے فیصلے نے عمران خان کی منجی ٹھوک دی ہے اور عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان نے نیک نیتی سے پارلیمنٹ کی قانون سازی کو چیلنج نہیںکیا تھا، ویسے تو احتساب کا عمل ہمیشہ متنازعہ رہا ہے ،ہر دور میں نیب کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ، آج کے عدالتی فیصلے کو دیکھا جائے تو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹو ریفرنس غیر موثر ہوجائے گا کیونکہ عمران خان پر 7 کروڑ روپے کی گڑبڑ اور تحائف کی کم قیمت لگانے کا الزام ہے ، عدالتی فیصلے کے بعد نیب 50کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز کی تفتیش نہیں کرسکتا اور اب یہ توشہ خانہ کا کیس نیب آئندہ چند روز میں ایف آئی اے کو بھجوا دے گا ،جہاں تک 190ملین پائونڈ اور القادر ٹرسٹ کیس کا تعلق ہے اور اس ریفرنس پر احتساب عدالت کے جج نے کارروائی ملتوی کردی ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے اور نیب کے جواب کے منتظر ہیں ، ان نیب ترامیم میں یہ بھی ایک شق شامل کی گئی تھی کہ اگرکابینہ یا کسی اور فورم پر اجتماعی طور پر فیصلہ کیا جاتا ہے تو نیب اس پرکوئی کارروائی نہیں کرسکے گا ، 190ملین پائونڈکیس سے متعلق عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا اور ایک بند لفافے کی منظوری دی گئی تھی ،یہ کہا گیا کہ برطانیہ کے ادارے این سی اے کے ساتھ معاہدے کے تحت تفصیلات کابینہ میں بیان نہیںکی جاسکتیں تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس میں عمران خان نے کافی حد تک ذاتی مفاد حاصل کیا اور منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس ملنے کے باوجود اسے سٹیٹ بینک یا سندھ حکومت کے پاس بھجوانے کے بجائے اسے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرادیا گیا اور اس طرح بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا گیا اور اسی تناظر میں ملک ریاض نے القادر یونیورسٹی کیلئے 460کنال اراضی تحفے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی اور یہ کیس اب احتساب عدالت میں آخری مراحل میں ہے ،سپریم کورٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا گیا ہے اور فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے اور عمران خان نے نیک نیتی سے قانون سازی کو چیلنج نہیںکیا تھا اور وہ خود اپنے دور میں آرڈیننس کے ذریعے اسی نوعیت ترامیم کرتے رہے ۔
سپریم کورٹ کافیصلہ،پارلیمان کااختیارتسلیم








