facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

13 سالہ انتظار کے بعد رومانیہ اور بلغاریہ شینگن کے ’بارڈر فری‘ زون کا حصہ بن گئے

13 سالہ انتظار کے بعد رومانیہ اور بلغاریہ شینگن زون کے مکمل رکن بن گئے، جس کے بعد شینگن کا سرحدوں کے بغیر علاقہ 29 رکن ممالک تک بڑھا دیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ توسیع اس وقت ممکن ہوئی جب آسٹریا اور دیگر ارکان نے سابق کمیونسٹ ممالک کی شمولیت پر اپنے اعتراضات واپس لے لیے، اس حوالے سے باضابطہ طور یکم جنوری کو نصف شب کے وقت مختلف سرحدی مقامات پر تقاریب منعقد کی گئیں۔

رومانیہ اور بلغاریہ، جو 2007 سے یورپی یونین کے رکن ہیں، دونوں ممالک کو مارچ میں جزوی طور پر شینگن زون میں شامل کیا گیا تھا، جس سے بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر سرحدی چیکنگ ختم ہوگئی تھی۔

تاہم آسٹریا نے تارکین وطن کے خدشات کے پیش نظر ان دونوں ممالک کے شہریوں کے مکمل داخلے کو ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی، جس کا مطلب زمینی سرحدی گزرگاہوں پر کنٹرول نافذ رہنا تھا۔

ویانا نے گزشتہ دسمبر میں اپنی ویٹو کی دھمکی کو اس وقت واپس لے لیا تھا، جب تینوں ممالک سرحدی تحفظ پیکیج پر ایک معاہدے پر پہنچ گئے تھے، جس سے یورپی یونین کے 2 غریب ترین ممالک رومانیہ اور بلغاریہ کے لیے شینگن میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔

1985 میں قائم ہونے والے اس زون میں اب یورپی یونین کے 27 میں سے 25 ارکان کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ، ناروے، آئس لینڈ اور لیخٹینسٹائن شامل ہوں گے، جو 400 ملین سے زائد افراد کی مجموعی آبادی کا احاطہ کرتے ہیں، رومانیہ اور بلغاریہ نے 2011 سے رکنیت کے لیے شینگن زون کی تکنیکی ضروریات کو پورا کیا تھا۔

تجزیہ کار ویلنٹین نومیسکو کا کہنا ہے کہ جب بھی رکن ممالک نے اس میں شامل ہونے کی کوشش کی تو اعتراض کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ یورپی یونین مخالف جماعتوں کی طرف سے مایوسی کا ایک ذریعہ بن گیا، جنہوں نے الزام لگایا کہ رومانیہ کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے، یہ ناراضگی رومانیہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں سامنے آئی تھی، جس میں انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کیلن جارجسکو نے پہلے مرحلے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد روسی مداخلت کے دعوؤں کے بعد انتخابات منسوخ کر دیے گئے تھے۔

شینگن زون 1985 میں یورپی یونین کے 5 ممالک فرانس، جرمنی، بیلجیم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ کے مابین ایک بین الحکومتی منصوبے کے طور پر قائم کیا گیا تھا، یہ آہستہ آہستہ دنیا کا سب سے بڑا مفت سفری علاقہ بن گیا ہے۔

تاہم، نیدرلینڈز، آسٹریا اور جرمنی سمیت شینگن کے متعدد رکن ممالک نے اس سال نقل مکانی سے لے کر سلامتی تک کے خدشات کے پیش نظر کچھ زمینی سرحدی چیک پوائنٹس کو بحال کر دیا ہے، یورپی یونین کے کچھ عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ دوبارہ عائد کردہ نگرانی کے اقدامات اسکیم کے مقاصد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

بلغاریہ اور رومانیہ کے جزوی طور پر داخلے سے قبل شینگن یورپی یونین کے 27 میں سے 23 ممالک پر مشتمل تھا، جن میں سوئٹزرلینڈ، ناروے، آئس لینڈ اور لیخٹینسٹائن بھی شامل تھے، تقریباً 35 لاکھ افراد روزانہ شینگن کی اندرونی سرحد عبور کرتے ہیں، اور 4 کروڑ 20 لاکھ افراد سے زیادہ شینگن میں رہتے ہیں۔