facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پیکاایکٹ پردستخط ، پیپلزپارٹی ،ن لیگ سے پیچھے نہ رہی

اسلام آباد(طارق محمودسمیر)صدرمملکت آصف علی زرداری نے متنازع پیکاایکٹ پر فوری طور پر دستخط کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اس ایکٹ کی منظوری میں پیپلزپارٹی
ن لیگ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہے،حالانکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان کے رابطہ کرنے پر صدرمملکت نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس بل پر دستخط چند دن کے لیے موخرکردیں گے ،بلاول بھٹوزرداری دیگر معاملات اور ایشوز پر تو ن لیگ ،پنجاب حکومت کو تنقیدکانشانہ بناتے رہتے ہیں اس بل پر بلاول بھٹو کی طرف سے پیپلزپارٹی کی سینئررہنماوسابق وزیرسینیٹرشیری رحمان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوا،سوشل میڈیاکاشتربے مہارہونااور اس کے ذریعے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا،اداروںکے خلاف پروپیگنڈا کرناکسی بھی طورپر درست نہیں ہے اور عامل صحافی اور صحافیوں کی تنظیمیںسوشل میڈیاکوریگولیٹ کرنے کے خلاف نہیں ہیںاختلاف صرف اتناہیکہ بل میں ایسی متنازع چیزیں شامل کی گئی ہیں جن سے شایدسوشل میڈیاکوتو کنٹرول نہ کئے جاسکے لیکن صحافیوں کیلئے شدیدمشکلات ضرورہوں گی کیونکہ تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیانے اپنے سوشل میڈیاسیٹ اپ قائم کرلئے ہیں اوروہاں اخبارنویسوں کو روزگاربھی مل رہاہے ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے سوشل میڈیاسیٹ اپ میں ایڈیٹوریل چیک اور ویڈیوزاپ لوڈ کرنے سے پہلے ایڈیٹنگ کانظام موجود ہے لیکن اس بل میں کچھ ایسی متنازع چیزیں شامل کردی گئی ہیں جنہیں بل سے نکالناضروری تھا،   مشاورت نہ کرنے کی شکایت صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل اہم شخصیات بھی کررہی ہیں،ن لیگ کے سینئررہنماسینیٹر عرفان صدیقی اور پیپلزپارٹی کی سینئررہنماشیری رحمان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مشاورت کی جانی چاہئے تھی حالانکہ یہ دونوں ماضی میں سینئرصحافی رہ چکے ہیں اور عرفان صدیقی اب بھی کالم لکھتے ہیں ،صدرمملکت کی طرف سے بل پر دستخط کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیوں کیاگیااس کاجواب پیپلزپارٹی کو دیناچاہئے اور مولانا فضل الرحمان سے کیاگیا وعدہ بھی نہیں نبھایاحالانکہ دینی مدارس کے بل کوصدرنے واپس بھجوایادیاتھااور بعدازاں مولانا فضل الرحمان کے شدید ردعمل کے باعث اس بل کی منظوری دی ،ن لیگ اور پیپلزپارٹی جب اپوزیشن میں تھیں اور عمران خان پیکاایکٹ کا آرڈیننس لائے تو دونوں جماعتوں نے شدید مخالفت کی تھی حتیٰ کہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر صحافیوں کا احتجاجی دھرناہوا جس میں وزیراعظم شہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے تھے اب ان دونوں جماعتوں کی سوچ میں جو تبدیلی آئی ہے اس پر صحافتی تنظیمیں سراپااحتجاج ہیں،دوسری جانب مذاکرات کا سلسلہ ختم ہونے کے باوجود سپیکر ایاز صادق سے تحریک انصاف کے رابطے جاری ہیں،پی اے سی کے چیئرمین اور پی ٹی آئی خیبرپختونخواکے صدرجنیداکبراور عاطف خان نے بدھ کو سپیکر سے ملاقات کی جس میں سپیکر نے دونوں رہنماوں سے کہاکہ سیاسی ماحول کو بہتربنانے کے لیے اپناکرداراداکریں ،ہرمسئلے کاحل بات چیت سے نکل سکتاہے،مگراس کے باوجود جنیداکبر ہارڈ لائن لے رہے ہیں اور انہوں نے کسی کانام لئے بغیرایک انٹرویومیں یہاں تک کہہ دیاکہ تحریک انصاف کی ہومیوپیتھک قیادت کو ہٹاناپڑے گاکیا ان کا اشارہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر اور سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ ،قائدحز ب اختلاف عمرایوب یاوزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورکی طرف ہے اس کی انہیں وضاحت کرنی چاہئے کیونکہ قیادت تو فی الحال یہی لوگ کررہے ہیں ،جنیداکبر8فروری کے احتجاج پروگرام کے حوالے سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ خیبرپختونخواسے پنجاب اور گلگت بلتستان کو ملانے والے راستوں کو بند کردیاجائے گا اور صوابی میں احتجاجی جلسہ ہوگا،احتجاج کرناتحریک انصاف کا آئینی وقانونی حق ہے،8فروری کے الیکشن پر ان کے تحفظات میں وزن بھی ہے لیکن انہیں سوچناچاہئے کہ راستے بندکرنے پر کے پی کے عوام کو کن مشکلات کاسامناکرناپڑے گاکیونکہ حال ہی میں کرم میں افسوسناک واقعات کے بعد جب راستے بند ہوئے تو عوام کو نہ تو ادویات مل رہی تھیں اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیاء لہذاراستے بندکرناکوئی اچھافیصلہ نہیں اس پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔