facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ہائیکورٹ ججزکاخط اعلیٰ عدلیہ میں نئے بحران کاعندیہ

اسلام آباد(طارق محمودسمیر) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے صدرمملکت اور چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط ارسال کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کسی دوسری ہائیکورٹ سے جج نہ لایا جائے اور نہ ہی چیف جسٹس بنایا جائے،خط لکھنے والے ججوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا نام بھی شامل ہے لیکن انہوں نے دستخط نہیں کئے  خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 سینئر ججوں میں سے ہی کسی کو چیف جسٹس عدالت عالیہ بنایا جائے،یہ پیشرفت ایسے موقع پرسامنے آئی ہیکہ جب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کواسلام آبادہائیکورٹ میں لانے کی خبریں سامنے آئی ہیں جسے رکوانے کے لیے خط لکھاگیاہے،واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت کسی ایک ہائیکورٹ میں دوسری ہائیکورٹ کے جج کا تبادلہ کیاجاسکتاہے گوکہ حکومتی موقف ہے کہ آئینی ترمیم کے تحت عدالتی نظام میں اصلاحات کی گئی ہے لیکن بظاہراعلیٰ عدلیہ میں اس آئینی ترمیم کے حوالے سے عدم اطمینان پایاجارہاہے،  اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی اس سے پہلے ایک تقریب سے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی میرا خیال ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ ہی سنے گا، یہ ایشو پاکستان کی عوام اور نظام کی بقا کیلئے حل ہوگا،چنانچہ ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلوں کی بنیادپرعدلیہ میں نئے بحران کا خدشہ موجود ہے،اعلیٰ عدلیہ میں اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن اس طرح کے خطوط کا میڈیاکی زینت بننازیادہ تشویش کاباعث ہے، دیکھاجائے توملکی عدالتی تاریخ میں ججوں کے درمیان اختلافات کی خبریں ہمیشہ ہی سامنے آتی رہی ہیں اور اکثر جج اپنے اختلاف رائے کا اظہار اپنے فیصلوں میں اختلافی نوٹ کے ذریعے کیا کرتے ہیں بعض آئینی، قانونی اور عدالتی انتظامی معاملات ججوں کے مابین اختلاف رائے کی خبریں بھی مقامی میڈیا کی زینت بنتی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے اپنے خط میں عدالتی امور میں آئی ایس آئی اور دیگر انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنھیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے،ادھر پی ٹی آئی کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا، حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کردی،یوں سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے امکانات اب مکمل طور پر معدوم ہوگئے ہیں جب پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاجی سیاست پرمشاورت جاری ہے جس سے آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت پھر سے بڑھنے کاامکان ہے۔