facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ظاہر جعفر کوسزائے موت یا رہائی؟نور مقدم کیس کا فیصلہ کر لیا گیا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے نورمقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

جج عطاء ربانی 24 فروری کو نورمقدم قتل کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائیں گے۔

آج عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو کمرۂ عدالت میں دیگر ملزمان کے ہمراہ پیش کیا گیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نثار اصغر نے عدالت کے سامنے حتمی دلائل دیے۔

گزشتہ سماعت میں تمام ملزمان کے وکلاء نے حتمی دلائل مکمل کر لیے تھے۔

مدعی کے وکیل نثار اصغر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ 2 ملزمان کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ ہم نے عبوری ضمانت دائر کر دی ہے، ملزمان نے کہا کہ شوکت مقدم با اثر تھا اس لیے اس نے گرفتار کرایا، سیشن جج کامران بشارت مفتی نے 26 جولائی کو ملزمان کی درخواست مسترد کی۔

مدعی کے وکیل نثار اصغر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملزمان کے وکیل کے دلائل تھے کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس ثبوت نہیں، والدین خود مانتے ہیں کہ وہ کراچی سے آئے، تین بار تھانے گئے، والدین نے پولیس کو لائسنس دیا، پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا، یہ وقوعہ عید کے دن ہو رہا ہے اور وہ بھی عیدالاضحیٰ کے دن جس میں 3 چھٹیاں ہوتی ہیں، مدعی شوکت مقدم عید کے باعث 22 جولائی کو آدھے گھنٹےکے لیے پولیس اسٹیشن آئے۔

مدعی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سی ڈی آر اور ڈی وی آر پولیس کے پاس تھیں اور کہا گیا کہ شوکت مقدم 10 بجے جائے وقوع پر نہیں تھے، شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوع پر پہنچے تھے، شوکت مقدم نے کہا کہ قتل سے 10 بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا، گواہ پولیس کانسٹیبل اقصیٰ رانی کہتی ہے کہ 10 سوا 10 بجے جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی، کرائم سین انچارج عمران کہتا ہے کہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوع پہنچا، 10 بجے سے پہلے صرف 1 پولیس اہلکار بشارت رحمٰن جائے وقوع پر پہنچا تھا، تفتیشی افسر عبدالستار کا کہنا ہے کہ 9 بج کر 45 منٹ سے 10 بجے کے درمیان قتل کی اطلاع ملی۔