بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ہانگ کانگ پاکستانیوں سمیت دیگر غیرملکیوں کے لئے پر کشش مقام

  ہانگ کانگ(شِنہوا) چین کا شہر ہانگ کانگ مختلف اقسام کے کھانوں،تحفظ اورروزگار کے لئے سازگار ماحول اور مواقع کے باعث پاکستانیوں سمیت دیگر غیرملکیوں کے لئے پر کشش مقام بن گیا۔چینی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملک کا بین الاقوامی کاروباری اور مالیاتی مرکز ہانگ کانگ اس وقت تقریباً 6 لاکھ غیر چینی باشندوں کا گھر ہے جہاں روایتی چینی کھانوں کے علاوہ جاپان کی سوشی ، تھائی کری اور ہسپانوی پیلا مقبول ڈشیں سمجھی جاتی ہیں۔
ہانگ کانگ میں 20 سال سے زائد عرصے سے مقیم پاکستانی عبدالسمیع شہر کو اپنا دوسرا گھرسمجھتے ہیں۔روانی سے کینٹونیززبان بولنے والا 22 سالہ نوجوان اب ہانگ کانگ کے بہت سے لوگوں کی طرح ہفتے کے دنوں میں کام کی جگہ پر طویل وقت گزارنے جبکہ چھٹی کے دنوں میں دوستوں کے ساتھ ہائیکنگ اور سائیکلنگ کر کے اپنی زندگی گزار رہا ہے لیکن کبھی سکول میں اپنے ہم جماعت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کرنے والے سمیع کیلئےسماجی انضمام کا عمل بھی آسان نہیں تھا۔
بہت سے غیر ملکی افراد کی طرح بچپن میں سمیع کو بھی زبان کی رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن نسلی اقلیتوں کو معاشرے کے مطابق ڈھالنے میں مہارت رکھنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم کی مدد سے سمیع نے جلد ہی کینٹونیزاور انگریزی کے ساتھ ساتھ تھوڑی مینڈرن چینی بھی سیکھ لی۔
سمیع کا کہنا ہے کہ انہوں نے میرے لیے جو کچھ کیا میں اس پر ان کا شکر گزار ہوں اور انہوں نے اسی مشکل سے گزرنے والے بچوں کیلئے کچھ ایسا ہی کرنے کےعزم کا بھی اظہار کیا۔اپنی زبان کی مہارت کی بدولت سمیع نے نوجوانوں کے کثیر الثقافتی نسلی لنک سینٹر میں ملازمت حاصل کی اور مختلف ثقافتی پس منظر کے لوگوں کو معاشرے میں ضم ہونے میں مدد فراہم کرنے کیلئے تعلیمی اور سماجی تقریبات کا اہتمام کیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی مدد کرنے سے مجھے ہمیشہ خوشی ملتی ہے۔ میرے والدین کو بھی مجھ پر بہت فخر ہے۔
سمیع ایک سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ہانگ کانگ پہنچے تھے جنہوں نے سیکورٹی گارڈ بننےسے پہلے ہانگ کانگ میں لاجسٹک انڈسٹری میں کام کر کے روزگار حاصل کیا۔ سمیع کے دادا بھی ہانگ کانگ میں لاجسٹکس میں کام کرتے تھے۔ہانگ کانگ کی مادر وطن واپسی سے پہلے بہت سے غیر ملکی جیسے کہ پاکستانی اور ہندوستانی یہاں آ کر انضباطی فورسز یا لاجسٹک صنعت میں کام کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن اب ان کی نوکریاں مختلف ہوتی ہیں اور وہ بہت سے مختلف شعبوں میں بھی کام کر سکتے ہیں۔
سمیع نے کہا کہ ان کا پیشہ اور ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو، نگہداشت اور محنت کے لحاظ سے ہانگ کانگ کے لوگ ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔تازہ ترین مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 میں ہانگ کانگ میں غیر چینی باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 8.4 فیصد تھی جو 2016 کے مقابلے میں 0.4 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔
ہانگ کانگ خصوصی انتظامی خطہ(ایچ کے ایس اے آر) حکومت نسلی اقلیتوں کو تعلیم ، روزگار اور مساوی مواقع فراہم کرنے کیلئے غیر منافع بخش اداروں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے سماجی انضمام کو فروغ دینے کیلئے کوششیں تیز کر رہی ہے۔
میریٹس ماتا کیلئے موقع اسے کہتے ہیں جس نے اسے 25 سال قبل ہانگ کانگ کی جانب راغب کیا تھا۔کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ماتا نے دیگر فلپائنی شہریوں کی طرح ہانگ کانگ میں ایک غیر ملکی گھریلو مددگار کے طور پر کام کرنے کا راستہ اختیار کیا۔اس کی واضح اور حقیقت پسندانہ وجہ یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کیلئے بہتر تنخواہ حاصل کرسکتی ہے۔اپنے خاندان کیلئے روزی روٹی کمانے والی ماتا نے اپنی بچت سے فلپائن میں ایک گھر خریدا اور اپنے بیٹے کی تعلیم میں مدد کی۔انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں ایک مضبوط عورت ہوں۔ مجھے اپنے کام پر بہت فخر ہے۔
ماتا نے کہا کہ وہ شکرگزار محسوس کرتی ہیں کیونکہ اس کے آجر اس کا احترام کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ خاندان کے ایک فرد کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ رواں جون اس کی 49 ویں سالگرہ پر جشن منانے کیلئے خاندان نے اس کیلئے ایک بڑا کیک خریدا۔اس دوران ماتا ہانگ کانگ کے خوبصورت مناظر اور جدید انفراسٹرکچر سے بھی لطف اندوز ہوتی رہی ہیں۔ اس نے اوشین پارک کا دورہ کیا، دوستوں کے ساتھ ہائیکنگ کی، اور اتوار کو پارکوں میں گانے گائے اور رقص کا لطف اٹھایا۔ہانگ کانگ میں 3 لاکھ سےزیادہ غیر ملکی گھریلو مددگار ہیں، جن میں سے زیادہ تر فلپائنی اور انڈونیشین ہیں۔ ہانگ کانگ نے انہیں بہتر روزگار کمانے کا موقع فراہم کیا، جبکہ ان کی محنت نے ہانگ کانگ کے لوگوں کو کیریئر کے مزید مواقع تلاش کرنے کے قابل بنایا۔